پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کی خوشحالی کا ضامن

Rana Zahid Iqbal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے انقلاب اکتوبر 1949ء کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے عظیم عوامی جمہوریہ چین کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے برادرانہ رشتے مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور یہ کہاوت وجود میں آ گئی کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں سی پیک منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز دونوں ملکوں کی دوستی اور تعاون کے حوالے سے ایک اور سنگِ میل ہے۔ جس کی افادیت کا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اورا س کے سرپرست امریکہ کے سوا دنیا بھر نے اعتراف کیا ہے اور یہ منصوبہ خطے میں گیم چینجر اوراقتصادی خوشحالی کا ضامن ہے، جس کا فائدہ بھارت کو بھی ہو گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خطے کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کا فائدہ یقیناً پاکستان کو اس لئے پہنچے گا کہ یہ راہداری پاکستان کی اہم بندرگاہ گوادر سے شروع ہوتی ہے۔قدرتی طور پر گوادر پورٹ میں سمندر کی جو گہرائی ہے وہ خطے کی کسی اور بندرگاہ میں نہیں ہے اسی انفرادیت کی وجہ سے چین نے اسے راہداری کے لئے منتخب کیا اور سرمایہ کاری کی ہے یہی بات پاکستان کے حریف ممالک کے لئے سوہانِ روح بن گئی ہے اور وہ ا س منصوبے کو سبوتاژ کر نے کے لئے تمام تر مذموم حربے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت، امریکہ اورا سرائیل نہیں چاہتے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے، وہ اس لئے بھارت کے ذریعے اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے لئے کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستانی معیشت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل پر پاکستان 2025ء تک دنیا کی بڑی معیشت بن کر ابھرے گا۔ ظاہر ہے ایسے میں وہ بھارت جو برِ صغیر کی تقسیم سے پاکستان کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے وہ کیسے پاکستان کو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا برداشت کر سکتا ہے۔ 
پاک چین اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ جہاں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا روڈ میپ ہے وہیں چین کے معاشی سپر پاور بننے کا ضامن بھی ہے اور یہی بات امریکہ کو سب سے زیادہ کھٹکتی بھی ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کے لئے عرب ممالک اور مغربی دنیا تک تجارت کے دروازے کھلیں گے۔ در حقیقت پاکستانی سرحد سے متصل چین کا مغربی علاقہ چھ صوبوں اور پانچ خود مختار ریاستوں پر مشتمل ہے۔ مغربی چین کے ان مغربی علاقوں کی پسماندگی پاکستان کے مغربی علاقوں فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسی ہی تھی۔ 1978ء میں چین نے اپنے پسماندہ مغربی علاقوں کو ترقی دینے کے لئے گرینڈ ویسٹرن ڈویلپمنٹ اسٹریٹیجی کے نام سے طویل المیعاد منصوبے کا آغاز کیا۔ چین نے شنگھائی، بیجنگ، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر علاقوں کے صنعت کاروں کو بے تحاشا مراعات دے کر اپنے ان پسماندہ مغربی علاقوں میں صنعتوں کا جال بچھا دیا۔ چار دہائیاں قبل شروع کیا گیا یہ منصوبہ اب تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ چین کے مغربی علاقوں پر مشتمل اس معاشی حب میں تیار ہونے والے مال کو عرب ممالک اور مغربی دنیا تک پہنچانے اور پھر ان صنعتوں کے لئے درکار خام مال لانے کے لئے روٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو چین نے اپنے دیرینہ دوست پاکستان کا انتخاب کیا۔ کاشغر سے شنگھائی کا فاصلہ پانچ ہزار کلومیٹر جب کہ گوادر سے کاشغر تک کا فاصلہ دو ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ چین کی دور اندیش قیادت نے کئی سال قبل پاکستانی قیادت کو بندرگاہ اور کاشغر سے گوادر تک سڑک بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ اقتصادی راہداری منصوبہ بڑی سڑکوں، توانائی کے منصوبوں، آئی ٹی پارکس اور انڈسٹریل پارکس پر مشتمل ہے۔ تین مختلف سڑکیں کاشغر سے شروع ہوں گی ،یوں کے پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی خضدار میں ایک دوسرے سے منسلک ہوں گی۔ اس منصوبے سے چین کو گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ، یورپ، امریکہ تک اپنا سامان پہنچانے کا قریب ترین راستہ میسر آئے گا۔ یہ راستہ ہر موسم میں کھلا رہے گا، یوں اس راستے کے اطراف صنعتی علاقے قائم ہوں گے اس طرح ترقی کے عمل کا سفر تیز ہو گا۔
آج جب کہ پوری دنیا معترف ہے کہ گوادر پورٹ تک اقتصادی راہداری دینے کے لئے چین کے تعاون سے شروع کئے گئے منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان ہی نہیں، اس پورے خطے کا مقدر بدل جائے گا اور ترقی و خوشحالی کا دور شروع ہو گا تو دہشت کے ناسور سے بھی عوام کو نجات مل جائے گی۔ ایسے میں پڑوسی ممالک اور دیگر بیرونی قوتوں کو پاکستان کا ایشین ٹائیگر بننا کسی طور گوارہ نہیں بالخصوص بھارت کے لئے پاکستان کا پہلا زینہ بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اس لئے وہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی کبھی کھل کر اور کبھی پوشیدہ طور پر مخالفت کر رہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ یہ منصوبہ ناکام ہو جائے جس کے لئے اس نے اپنے ملک میں کئی ٹاسک فورس بنا رکھی ہیں جو دن رات اس منصوبے کی ناکامی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ بعض اطلاعات میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی " را" اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے بھرپور انداز سے کام شروع کر رکھا ہے۔ ہمیں اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے دشمن قوتوں کی سازشوں سے بچنا ہو گا۔ ماضی میں حکومتی سطح پر "را" کی کاروائیوں کی نشاندہی کی گئی اور سلامتی کے اداروں کے اہم عہدیداروں نے کھل کر "را" کی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کی۔ بھارت پاکستان کے اندر بھی صوبوں کے درمیان منافرت پھیلانے کے لئے فنڈنگ کر رہا ہے تا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے اندر بھی نااتفاقی کا شکار ہو کر ناکام ہو جائے۔ بھارت کے دل میں یہ منصوبہ کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، اس پس منظر میں سیاسی قوتوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ کسی کے آلۂ کار تو نہیں بن رہے ہیں۔ اس منصوبے کے ثمرات سے کوئی صوبہ محروم نہیں رے گا بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی اس سے استفادہ کریں گے۔