تمام تعریفیں اس ذات کے لیے جس نے انسان سے پوری انسانیت کو وجود بخشااور درود و سلام ہوا اس ہستی پر جس نے آداب ِ زندگی سکھائے اور خدا کی رحمتیں ہوں ان برگزیدہ ہستیوں پر جن کے طفیل ہمیںہدایت کی شمعیں نصیب ہو ئیں۔بندگی کے خاص مقاصد کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑکو پیدا کیااور پھر انکے وجود سے تمام انسانیت کی ماں حضرت ہوا ؑ کو پیدا فرمایا‘پھر آگے ان کی اولاد میں سے بہت سارے مرد وں اور عورتوں کو پھیلایا۔اولادِ آدم کا یہ پھیلائو اس قدر پھیلا کہ حضرتِ انساں ایک گھر اور گھرانے سے کافی آگے نکل گئے اور جب شناخت کی مشکل اور ضرورت پیش آنے لگی تو اللہ سبحان تعالیٰ نے اپنی حکمت و مصلحت سے مختلف جتھون اور قبائل سے متعارف کروا دیا تاکہ باہمی شناخت اور پہچان کا فائدہ حاصل ہو سکے۔زمانہ کی گردش کے ساتھ ساتھ انسان ہدایت کی شمعوں سے دور ہونے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسانیت میں مختلف روحانی ا ور اخلاقی
امراض در آئے ۔یہاں تک کہ لوگ اپنے نام و نسب اور قبیلہ و کنبہ کو اپنے اعزاز و افتخار کا نشان سمجھنے لگے۔تعصب و نسل پرستی سے دنیا میں آج بھی ایک فساد برپا ہے،عصبیت ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کر رہی ہے۔عصبیت پسندی نے اسلامی اخوت وبھائی چارے کے درس کو بھی کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔رسول اللہ ﷺ نے دوسرے روحانی و اخلاقی امراض کی طرح اس مرض کے قلع و قمع کے لیے بھی تعلیم دی اور بے شمار وعیدات کے ذریعے عصبیت کی فکر سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور ایسے تمام افکار و نظریات کی حوصلہ شکنی فرمائی ‘جن سے لسانی نسلی یاگروہی تعفن ابھر سکتا ہو‘بلکہ شرافت و عزت کا مدار علم ِ دین ‘ تقویٰ و خشیتِ الٰہی کو قرار دیا۔اسلام نسل پرستی اور قوم پرستی کے بجائے ہمیشہ وحدتِ انسانی کا حامی رہا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے لوگوں ہم نے تمیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیںاور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔تعصب کی کئی شاخیں ہیں،حسبی و نسبی تعصب،قبیلہ پرستی و ذات برادری کی عصبیت ،لسانی و وطنی عصبیت ،ملکی و قومی عصبیت ۔مالداری و کثرتِ اولاد کی وجہ سے تفاخر و تعاظم اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا جذبہ ان ہی تمام عوارض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔فرمانِ نبویﷺ ہے کہ جسے عصبیت پر موت آئی وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔یعنی ایسے فرد کا شمار امتِ محمدیہ ﷺمیں نہیں ہو گا۔لہذا ہمیں اپنی ذہنی فکر و سوچ اور اپنے عمل و کردار کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی عصبیت کے مکروہ مرض کا شکار ہو کر امتٍ محمدیہﷺمیں شمولیت کے عظیم شرف سے محروم تو نہیں ہو رہے۔اگر ہم اپنے ملک و قوم کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عصبیت کے ان تمام مکروہ نعروں کو فراموش کرنا ہوگا،سندھی، پنجابی،بلوچ اور پختون کو بھلا کر ایک امتی اور مسلمان کی حیثیت سے ملک میں امن و امان قائم کرنا ہو گا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کے تمام فتنوں سے محفوظ رکھے۔۔ آمین