آج کا کالم دل چاہا کہ اچھی خبروں جس میں ڈالر کی اڑان سے ڈھلوان، بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی، امریکہ کے نمائندوں سے پی ٹی آئی قیادت کے تعلقات میں بہتری، ظاہری طور پر مخالفت مگر اندرون خانہ بابے بائیڈن سے بابے رحمتے جیسی حمایت کے حصول کے لیے پیش رفت کے ساتھ پنجاب حکومت کے بھی امریکی عہدیداروں سے مٹی پاؤ کی گزارشات کی خبروں کا عام ہونا ہے۔ چین، سعودی عرب، ترکیہ، امریکہ و دیگر ممالک سے وزارت خارجہ کی طرف سے تعلقات باہمی معاہدے اور دیگر معاملات میں پیش قدمی کی خبریں عام ہیں۔ سویڈن سے معاہدے اور دیگر ممالک سے معاشی، سماجی اور دیگر امور میں ہم آ ہنگی پیدا کرنا ہے جبکہ دوسری جانب آفار سماوی میں بلوچستان اور وطن عزیز کے دوسرے صوبوں و علاقوں میں بارش کی تباہ کاریاں ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نے بلوچستان کا دورہ کر کے وہاں کے غیور اور بے آسرا عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے اس سلسلہ میں ہمارے دوست سرفراز بشیر منج کالم نگار نے ایک عمدہ کالم بھی لکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غیور بلوچ قوم کی عزت نفس برقرار رکھنے کا اہتمام کر دیں تو شاید وہ سیلاب کی تباہ کاریاں آسانی سے برداشت کر لیں۔ وہ سرزمین جس کے اوپر پانی زندگی بہا لے گیا اور اس کے نیچے معدنیات اور دیگر قدرتی نعمتوں کے سمندر بہہ رہے ہیں مگر عام بلوچ کسمپرسی کی زندگی میں مبتلا ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے عزت نفس کا اہتمام اور اس کے بعد باقی اقدام ہوں تو حالات میں آنے والا فشار بیٹھ جائے گا۔ ہم بلوچ کو بلوچی کے بجائے بلوچ ہی کہہ لیں تو بڑی بات ہے۔ بہرحال پاک فوج نے تو حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں اپنی جانوں کے انمول نذرانے پیش کر دیئے جو ایک لسبیلہ کے ناقابل فراموش سانحہ کو تاریخ کا درخشندہ باب بنا گیا۔ دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ایک سیاسی جماعت اقتدار کی صورت میں فوج کے ادارہ جاتی احترام اور قدر و منزلت کو صرف اسٹیبلشمنٹ تک محدود کر گئی اور وہ اول فول کہہ دیا کو نہیں کہنا چاہئے تھا۔ اگر ایک قوت نے اپنے آپ کو آئینی حدود سے تجاوز نہ کرنے کی ٹھانی ہے ان لوگوں نے اتنا دل کو لگا لیا کہ ملکی سلامتی کے پورے کے پورے ادارے کے نظام کے درپے ہو گئے۔ مثالیں دینے لگے میاں نوازشریف، زرداری صاحب اور دیگر کی وہ تو سولی چڑھ گئے، چوکوں میں قتل ہوئے، قید ہوئے، شاہی قلعے دیکھے کوڑے کھائے، کئی تو اب تک نامعلوم راہوں میں مارے جا چکے، جلاوطن ہوئے، پورے پورے خاندان احتساب کے عذاب سے نکلے اور سابقہ حکومت نے تو انتقام کی آخیر کر دی جھوٹ اور ناجائز مقدمات کے ساتھ کردار کشی الزامات اور تمسخر ارائے گئے۔ جبکہ ان کے ساتھ تو
کچھ بھی نہیں ہوا صرف ایک بٹیر عرف شہباز گل ناقابل معافی بیان پر دھر لیا گیا گویا کوئی حسین پکڑ لیا گیا ہے ویسے اب تو اخیر ہی ہو گئی۔ مسائل فروش، دکھ فروش، مذہب فروش، ضمیر فروش، مذہبی ٹچ فروش، بیانیہ فروش، کردار فروش نہ جانے کیا کیا بازار میں آ گیا کہ مصر کا تاریخی بازار ماند پڑ گیا۔ ہمارے سماج میں اتر آئے معاشرت تہہ و بالا ہو گئی۔ تاریخ مسخ کر دی گئی میں ٹوئٹر پر جب چند لوگوں کے چہرے دیکھتا ہوں جو یزیدیت، یزید کی نسل اور حسینیت کی بات کرتے ہیںتو گوئٹے کا ایک ڈرامہ یاد آتا ہے جس میں ایک آنکھ، ایک ٹانگ، ایک باز کے بغیر بدصورت آدمی کہتا ہے کہ میں امیر آدمی ہوں دو ٹانگوں، آنکھوں اور پڑھے لکھوں کو ملازم رکھ لوں گا (حاصل ڈرامہ) اس پر مجھے ایک پنجابی سٹیج ڈرامہ یاد آتا ہے جس میں ایک چوہدری جس کی ایک ٹانگ نہیں، ایک آنکھ نہیں، ایک بازو نہیں، ان پڑھ اور بدصورت گیٹ اپ کے ساتھ ہے۔ چودھری سٹیج پر آ کر سب کو جاہلو، گنواروں، غریبو، ان پڑھو، بے شرمو کہہ کہہ کر پکارتا ہے تو شاید نواز انجم آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ قدرت خدا کی ہمیں کہہ کون رہا ہے؟۔ پہلے تو عمران نیازی کا ٹوئٹ ہی تھا کہ کوفی جانتے تھے امام حسینؓ حق پر تھے مگر انہوں نے ساتھ نہ دیا۔ سینیٹ کا چیئرمین، صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر میں ان کی حکومت ہے۔ ضمنی انتخابات میں 20 سیٹوں میں 15 سے زائد سیٹوں پر ان کو کوفیوں نے ووٹ کیا ہے؟ ملک کے بڑے بڑے مولوی جو مولانا کہلاتے ہیں یوتھیے بن گئے اب بھی یہ ان کو کوفی کہیں۔ چند ایک بیرومیٹر جو ہمیشہ سیاسی محکمہ موسمیات کی خبر دیتے ہیں، چند اپنے تئیں عاشق رسول ہونے کا دعویٰ کرنے والے ’’دانشور‘‘ چند اینکرز جن کے وجود میں ایک مسام اور ہڈی ایسی نہیں جو خواب میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سوچے اگر روایتی یوتھیے سے چار ہاتھ آگے پائی جائے کذب بیانی اور سنی سنائی بات کو آگے بڑھاتی چلی جائے تو میں کیسے مان لوں کہ پی ٹی آئی کی کسی ادارے کی طرف سے مخالفت ہے یہ دراصل اپنی نااہلیت کی وجہ سے ناکام ہوئی۔ ایک اور واقعہ یاد آیا بہت سنا ہو گا آپ نے کہ ایک آدمی کی بھینس بیمار ہو گئی۔ دوسرے راہگیر نے کہا کہ اس کو فلاں فلاں چیزیں پیس کر کھلاؤ۔ واپسی پر جس کی بھینس بیمار تھی، اپنی مری ہوئی بھینس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، پوچھا کہ بھینس مر گئی؟ اس نے کہا، ہاں مر گئی۔ تو پھر اس نے کہا، یہی نسخہ میں نے بھی اپنی بھینس کو کھلایا تھا وہ بھی مر گئی تھی۔ آپ پی ٹی آئی کی افزائش دیکھ لیں۔ 2011 کے جلسے کے بعد جو نسخہ دیا گیا جو لوگ شامل کرائے گئے وہ 40 سال سے حکومتوں کو ناکام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پھر نئی بننے والی حکومت کی خبر پا کر اس کی طرف مراجعت کرتے ہیں جبکہ سابقہ وفاقی حکومت میں عمران خان بذات خود سونے پر سہاگہ تھے۔ تنا غصہ نہ کریں میاں نوازشریف، بھٹو فیملی اور زرداری کے ساتھ مخالف حکومتوں نے کیا، آپ کے ساتھ تو ڈھائی فیصد بھی نہیں ہوا، دراصل پی ٹی آئی اور عمران نیازی کا معاملہ بقول وارث شاہ کے اتنا ہی ہے کہ:
باپو نہیں پورا تینوں کوئی ملیا
اجے ٹوہیؤں بکلاں مائیاں دیاں
آپ کی تو حکومتیں قائم ہیں سوائے سندھ اور وفاق کے۔ آخر پر موجودہ حکومت کی سمت بالکل درست ہے وہ کام کی طرف توجہ دے رہے ہیں فی الحال ان کا کوئی انتقامی رویہ نہیں ہے اگر خود ہی شہباز گل (بٹیر) اڑتا تیر بغل میں لے لے تو شہباز شریف کیا کریں؟ رانا جی تو معاف کر ہی دیں گے یہ اپنے کرتوت بھی دیکھیں۔ سابقہ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ کسٹم ٹریبونل میں کرپشن بہت ہے یہ بند ہونے چاہئیں۔ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کے بینکنگ کورٹ، نیب کورٹ، انشورنس ٹریبونل اور اس جیسی کئی عدالتیں اب بھی وہاں پر موجود ہیں مگر موجودہ کسٹم ٹریبونل 9-10 مرکز میں 26 لاکھ روپے مہینہ پر لی گئی عمارت میں ہے جہاں پر پانی اور دیگر ضروریات بھی موجود نہیں اس ٹریبونل کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں جگہ دے دی جائے تو حکومت کے کروڑوں روپے سالانہ بچ جائیں گے۔ ویسے بھی اسلام آباد میں پلاٹوں کی الاٹ منٹ کی شہرت ہے کوئی قطعہ اراضی ان کو بھی دے کر ایک عدالت قائم کر دی جائے۔ ملک کے طول و عرض میں سرکاری زمین، بیوروکریسی اور دیگر حکمران طبقوں کی ایکڑوں میں کوٹھیاں ہیں سرکاری زمین جس کی آئے روز لوٹ سیل اور بندر بانٹ کی خبریں ہیں اس کو فروخت کر کے بیورو کریسی کو ایک کنال اور دس مرلہ کے گھروں تک اکتفا کرنے کی درخواست کی جائے۔ 4 ٹریلین سے زائد روپے کے کسٹم اور آئی آر ٹربیونلز کے مقدمات ہیں جو بدنصیبی سے بعض ممبران کی جیب گرم کر کے قومی خزانہ لوٹ لیا جاتا ہے۔ ایسے ہی نہیں کہا گیا کہ عدالتوں میں رکھا گیا قرآن شریف اگر ملزمان کے ہاتھ میں دینے کے بجائے ججوں کے ہاتھ میں دیا جائے تو فیصلے بہتر آ سکتے ہیں۔ شاید یہ ٹریبونل کے ان ممبران کے لیے کہا گیا ہے جن کا ذکر کر چکا ہوں۔ دنیا سے قرض اور مدد مانگنے کے بجائے حکومت اگر اپنے پیسے کو ہی ریکور کر لے تو قرضہ جات سے جان چھوٹ جائے۔ اب آئندہ کالم میں، میں ان ممبران اور لوگوں کے نام بھی دوں گا جو اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ مقدمہ کی کل مالیت کے 10 فیصد میں سے تیسرا حصہ اگر ان کی جیب میں جاتا ہے تو شاید قارئین کل مالیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ کروڑوں اور اربوں روپے کا حصہ ہے۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس صاحبان کی توجہ درکار ہے۔