مشکل یہ ہے کہ اس ملک میں اپنی بات کہنا اورکسی معاملے پر رائے کا اظہار کرنا مشکل ہو چلا ہے۔یہاں پر ہم جمہوریت پر بات نہیں کر سکتے۔ فوجی آمریتوں کا ذکر نہیں کر سکتے۔ سقوط ڈھاکہ کا نوحہ نہیں پڑھ سکتے۔دینی اور مذہبی معاملات پر بات کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔ مذاہب، مسالک اور فرقوں پر بات کرنے کی آزادی نہیں۔اب کچھ عرصہ سے ایک نئی مخلوق ہم پر مسلط ہے۔ یہ ایک مخصوص قسم کا لبرل طبقہ ہے۔ "مخصوص" کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ میرے اپنے حلقہ احباب میں بیسیوں لبرلز اور ماڈریٹ افراد شامل ہیں۔ ان کیساتھ ہمارا دوستی اور بے تکلفی کا رشتہ و تعلق ہے۔ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔ مگر بد زبانی اور بد کلامی پر نہیں اتر پڑتے۔ مخصوص لبرل طبقے کا طریقہ کار لیکن مختلف ہے۔ اس طبقے نے عورت کی آزادی اور حقوق پر بات کرنا بھی مشکل بنا رکھا ہے۔اس طبقے کے ناقدین انہیں موم بتی مافیا، میرا جسم، میری مرضی گروپ، یا لنڈے کے لبرل کے نام سے پکارتے ہیں۔ لیکن میں ایسا نہیں کہوں گی۔
نور مقدم قتل کیس کے متعلق دو تین کالم لکھے تھے۔ تب سے اب تک عجیب و غریب رد عمل اور فیڈ بیک کا سامنا ہے۔کسی نے مجھے مولوی کا خطاب دے دیا۔ کچھ نے مجھے طالبان لکھ ڈالا۔کسی کو میں پدر سری(patriarchy) کی پیداوار دکھائی دیتی ہوں۔ کسی کو میری ذہنی پسماندگی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ میں عورت کی آزادی کے سخت خلاف ہوں۔ مردوں کو شہ دے رہی ہوں اور ان کا حوصلہ بڑھا رہی ہوں۔ وکٹم بلیمنگ (victim blaming) کی مرتکب ہور ہی ہوں۔ اس رد عمل کے بعد میں نے دوبارہ، بلکہ سہ بارہ اپنے کالم پڑھے۔ ان کالموں میں کھل کر لکھا ہے کہ ظاہر جعفر جیسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کیساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ لازم ہے کہ ہم نظام قانون و انصاف میں بہتری لائیں، تا کہ انصاف کی بر وقت فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
میں نے کہیں نہیں لکھا کہ عورت مظلوم نہیں، یا ظلم کا شکار نہیں۔ یہ بھی نہیں کہا کہ عورت کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے کسی کال کوٹھری میں پھینک دیجئے۔فقط یہ عرض کیا تھا کہ عورت کی آزادی کی اہمیت مسلم ہے مگر آزادی کی بھی کچھ حدود و قیو د ہوتی ہیں۔ لبرل طبقے کا اصرار ہے کہ عورت کی آزادی کسی بھی قسم کے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ سے مستثنیٰ ہو۔ مطلب یہ کہ بے مہار اور مادر پدر آزادی درکار ہے۔ کالموں پر آنے والے ردعمل نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا ہمارا معاشرہ تحمل و برداشت سے محروم ہو چکا ہے؟ کیا ہم میں سے ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ وہ حق اور سچ پر ہے اور اس کے سوا تمام لوگ غلط اور جاہل ہیں جو اس کی بات پر یقین کرنے (بلکہ آنکھیں بند کر کے ایمان لانے) کے بجائے اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں؟ کیا ہم جمہوریت کے اس بنیادی تقاضے سے عاری ہو چکے ہیں کہ اپنی بات کہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کی بات تحمل سے سننا بھی ضروری ہے؟ کیا ہم مکالمے کی اہمیت بھول گئے ہیں؟ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ شدید قسم کے تناو، کشیدگی، ذہنی بندش اور تنگ نظری کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کا مظاہرہ گھروں، گلی محلوں، دفتروں، حتی کہ پارلیمنٹ کے ایوانوں تک میں بھی ہونے لگا ہے۔
مجھے اپنے حالیہ کالموں سے اندازہ ہوا کہ یہ بیماری کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے گالی گلوچ کا کلچر عام ہو گیا ہے۔ جو لوگ لبرل کہلاتے ہیں، ان سے توقع رکھی جاتی ہے کہ جس طرح یہ لوگ، لباس،رہن سہن، میل جول، اور طور طریقوں میں آزاد بلکہ آزاد منش ہیں، اسی طرح وہ رائے کی آزادی کا بھی احترام کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب، معاشرے، سماج یا گھر بار کی بندش بے معنی ہیں اور انہیں زندگی اپنے ڈھب سے گزارنے اور اپنے جسم پر اپنی مرضی نافذ کرنے کا حق یا اختیار حاصل ہے اور اگر ان کی یہ خواہش ہے کہ کوئی دوسرا ان کے اس انداز فکر پر انگلی نہ اٹھائے۔ تو وہ ایسے افراد کو یہ حق دینے کے لئے کیوں تیار نہیں جو زندگی مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ مذہب، تہذیب، معاشرتی اقدار، قومی روایات اور خاندانی آداب کو اہمیت دیتے اور اپنے جسم پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے، اس جسم اور اسکے اندر روح اور جان ڈالنے والی ہستی کی بھی مرضی شامل رکھنا چاہتے ہیں۔ جو اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے نکال پھینکنے کے بجائے ان کی راہنمائی اور مشاورت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر خود کو لبرل قرار دینے والے اتنے تنگ دل اور تنگ نظر ہیں کہ کسی دوسرے موقف کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے نا شائستہ اور اخلاقیات سے گرا ہوا لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ تو کیا روایت پسند طبقے کے منہ میں زبان نہیں ہے جو "پدر سری" یا "مادر سری" جیسی تراکیب کو اپنے دین اور اپنی اقدار کے خلاف خیال کرتے اور ایک جداگانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
برسوں سے ہم یہ رونا رورہے ہیں کہ معاشرے میں انتہاپسندی اور عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ فکری انتہا پسندی کی بھی انتہا ہو چلی ہے۔ کسی زمانے میں مذہبی طبقے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ڈنڈے کے زور پر اسلامی تعلیمات کا نفاذ چاہتا ہے۔ اب یہی کام لبرل طبقے نے شروع کر رکھا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ خود تو آپ کو ہر طرح کی آزادی بلکہ بے مہار آزادی چاہیے۔ مگر مجھ جیسوں کو آپ فقط بات کرنے کی آزادی دینے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ اسے لبرل انتہا پسندی نہ کہیں تو کیا نام دیں؟ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں ایک قدامت پرست اور روایت پرست طبقہ موجود ہے۔ جو پردے اور حجاب کی پابندی کرنا چاہتا ہے۔ جو چاہتا ہے کہ عورت غیر مردوں سے دوستانہ مراسم نہ بڑھاتی پھرے۔ جو دینی اور سماجی روایات کے عین مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ آپ بدکلامی کے زور پر اس طبقے پر اپنی لبرل سوچ مسلط کرنے کی کوشش مت کیجئے۔
میں نے کسی کالم میں نور مقدم اور ظاہر جعفر کی دوستی کا ذکر نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی انسان خامیوں اور برائیوں سے مستثنیٰ نہیں۔ مگر برائی کو جب ڈھٹائی سے اختیار کیا جائے، اسے قابل جواز بنانے کیلئے رنگ برنگی تاویلیں گھڑی جانے لگیں تو اس کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اللہ کے احکامات، سماجی اقدار، اور خواتین کی حدود کی پابندی اگر ہم سے نہیں ہورہی، تو مت کیجئے۔ مگر انہیں منہ بھر بھر کر گالیاں بھی مت دیجئے۔ میں خود ایک کاندھے پر دوپٹہ ڈالے شہر بھر میں گھومتی پھرتی ہوں۔ اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ میں اس بات سے منکر ہو جاوں کہ میرے رب نے پردے کا حکم دے رکھا ہے؟ کیا میں پردہ کرنے والیوں کو گالیاں دیتی پھروں؟ مجھ سمیت بہت سے نماز کی پابندی نہیں کرتے۔ تو کیا اس پر اللہ سے شرمندہ ہونے کے بجائے، ڈھٹائی سے حجت بازی کرتی پھروں؟ حقوق نسواں کے نام پر لبرل طبقہ یہی کر رہا ہے۔
مجھے اپنے موقف کے حق میں بہت سے پیغامات ملے۔ گالم گلوچ سے لتھڑے غلیظ تبصروں کے ساتھ تعریفی تبصرے بھی ضرور آئے۔ لیکن مجھے ایک بار پھر یقین ہو گیا کہ اگر کسی کے پاس دلیل ہو تو وہ یقینا مہذب انداز میں اپنا مدلل موقف پیش کرتا ہے۔ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ کس دلیل کو مضبوط خیال کرتے اور کس موقف کو درست سمجھتے ہیں۔ جب کسی موقف یا رائے کو رد کرنے کے لئے مضبوط دلیل نہیں ہوتی تو مدمقابل لعن طعن اور گالیوں پر اتر آتا ہے۔ گھٹیا، غلیظ اور گری ہوئی زبان استعمال کرتا ہے۔ یہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔