اب ایسا بھی نہیں کہ سیاستدان اتنے سادہ ہیں کہ اپنے خلاف ہونے والے سازشوں کو بھاپننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کبھی کبھار چوک تو کسی سے بھی ہوسکتی ہے لیکن کسی سمجھدار آدمی کو مسلسل دھوکہ دینا ممکن نہیں ہوتا۔ سیاستدان تو بہت آگے تک دیکھ سکتے ہیں خصوصاََ وہ لیڈر جو خود حکومت میں رہ کر ہر طرح کے توڑ جوڑ کا براہ راست مشاہدہ کر چکے ہوں۔ کسی سیاسی پیش رفت کو دیکھنے والے سیاسی کارکن یا عام شہری اپنے اپنی دانست میں درست اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں مگر ان کو یہ علم نہیں ہو پاتا کہ اس صورتحال کا شکار ہونے والے سیاستدان کیونکر دلیرانہ یا اصولی کردار ادا نہیں کررہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو اس وقت بالعموم اور مسلم لیگ ن کو بالخصوص ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے بلکہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پارٹی میں دو طرح کے بیانئے ہیں نواز شریف اور ان کے ہمنوا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف اور ان کے ہم خیال صلح و صفائی کے حامی ہیں۔ کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی کچھ ہے یا پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو طرح کے تاثر پیدا کیے جارہے ہیں تاکہ اس میں درمیانی راستہ نکال کر اس کڑے وقت کو گزارا جائے۔ اندر کی خبر رکھنے کے دعویدار حلقوں کا تو یہی کہنا ہے کہ شریف خاندان میں اس وقت دونوں بھائیوں کے درمیان کوئی اختلاف ہونا تو دور کی بات بچوں کے درمیان بھی کسی قسم کی رنجش نہیں۔ نواز شریف کے نام پر جارحانہ سیاست کرتی مریم نواز اور شہباز شریف کے مفاہمتی ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے دھیمی رفتار سے چلنے والے حمزہ شہباز درحقیت ایک ہی مشن پر ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں 2014 کے دھرنوں کے بعد ہونے والے واقعات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ 2018 کے متنازع ترین عام انتخابات کے ذریعے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لاکر کون سے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ کوئی راز نہیں کہ ان انتخابات کے نتائج مرتب کرتے وقت جو مرکزی ہدف سامنے رکھا گیا وہ پرانی سیاسی جماعتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔اقتدار سے جنرل مشرف کی رسوا کن رخصتی کے بعد اس منصوبے پر کام شروع ہوا تو جنرل شجاع پاشا کے حوالے سے کئی سیاسی شخصیات نے بتایا کہ انہیں بلا کر کہا جارہا ہے کہ کیا ہماری قسمت میں بلاول بھٹو، حمزہ شہباز اور مونس الٰہی ہی رہ گئے ہیں۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت منظر نامے پر موجود سیاسی جماعتوں کو مستقبل میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ دھرنوں کے وقت سے ہی کئی افسروں نے کھلم کھلا کہنا شروع کردیا تھا کہ مسلم لیگ ن کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ عمومی تاثر کے برعکس شہباز شریف بھی واضح طور پر ٹارگٹ تھے۔ پنجاب میں کئی ترقیاتی منصوبے برق رفتاری سے مکمل کراکے داد و تحسین وصول کرنے والے سٹار بیورو کریٹ احد چیمہ کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ شہباز شریف کو مزہ چکھانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ وہ سی پیک کے حوالے سے بہت پر جوش اور متحرک تھے۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کو پاش پاش کرنے کا منصوبہ پورا نہ ہوسکا مگر اس سے پنجاب چھین لیا گیا۔ خیال تھا کہ اگلے عام انتخابات تک پارٹی خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بکھر جائے گی مگر اس کے بھی آثار نظر نہیں آرہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات ہر صورت پی ٹی آئی کو ہی جتوانے تھے۔ ایسا ہی ہوا مگر مسلم لیگ ن بڑے پیمانے پر ووٹ لے کر یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ اگر انتخابات میں طاقتور ہاتھوں کی مداخلت بند ہوجائے تو اس سے الیکشن چھیننا آسان نہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں کم ووٹوں کے باوجود پیپلز پارٹی کو زیادہ نشستیں دے کر مسلم لیگ ن
کو مزید ہزیمت سے دوچار کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے فوری بعد سیالکوٹ میں مسلم لیگ کے سیالکوٹ میں ایک ناقابل تسخیر حلقے میں اس کے امیدوار کو شکست سے دوچار کرکے بتا دیا گیا کہ اگلے الیکشن میں پنجاب میں بھی آزاد کشمیر جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات درست ہے کہ آزاد کشمیر کے بعد سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں شکست نے مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی میں سراسیمگی پھیلا دی ہے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب برطانیہ کی حکومت ایک خلاف توقع قدم اٹھاتے ہوئے نواز شریف کے ویزے کی میعاد میں توسیع کرنے سے انکار کردیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس وقت نہ تو نواز شریف واپس آنا چاہتے ہیں اور نہ اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ ان کو واپس لایا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہی خواہش ہے کہ نواز شریف باہر ہی رہیں اور ملکی معاملات پر بات کرنے سے گریز کریں۔ بہر حال اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ ن کے قیادت، ارکان اسمبلی اور کارکن تک محسوس کررہے ہیں کہ انہیں نشانہ بنانے کا جو عمل ریاستی سطح پر مختلف اداروں کے ذ ریعے شروع کیا گیا تھا، منصوبہ ساز اسے آگے بڑھانے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اس وقت یہی معاملہ درپیش ہے کہ اس نے بطور جماعت ایسی حکمت عملی بنانی ہے کہ جس سے ارکان اسمبلی اور کارکن بددل نہ ہوں۔ امید کی کوئی کرن نظر آتی رہے اور اچھے دنوں کے انتظار میں وقت یوں ہی گزرتا جائے۔ یہ چیلنج اس لئے بھی مشکل ہے کہ اب واضح طور پر نظر آنا شروع ہوچکا کہ 2023 میں پی ٹی آئی کو پھر سے اگلے پانچ سال کے لئے حکومت سونپنے کے انتظامات تیزی سے مکمل کئے جارہے ہیں۔ کھلی انتخابی دھاندلی تو ہوگی ہی ہوگی اس کے ساتھ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر اپوزیشن کے لیے الیکشن کو پیچیدہ تر بنا دیا جائے گا۔ اپوزیشن کے بڑے سیاستدانوں کی عدالتوں سے نااہلی پہلے ہی سے اس گریٹ پلان کا حصہ تھی جس کے تحت دسمبر 2019 تک ایسی تمام شخصیات کی چھٹی کرا دینا مقصود تھا۔مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور پھر پی ڈی ایم کی تحریک نے ایسا زلزلہ پیدا کیا کہ تمام منصوبہ بندی دھری رہ گئی۔ مگر یہ پلان پھر سے زندہ ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بڑے اعتماد سے بتایا کہ اگلے دو سال میں یعنی عام انتخابات سے پہلے کرپشن کے تمام مقدمات کے فیصلے ہو جائیں گے۔یہ خام خیالی ہے کہ اس کی لپیٹ میں صرف ن لیگی ہی آئیں گے۔ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کئی بار دھوکہ کھانے کے باوجود طاقتور حلقوں کا در چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ مقتدر قوتیں سرکشی پر آمادہ اپنے مخالفین سے تو صرف نظر کر لیتی ہیں مگر اپنے سامنے جھکنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کرتیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک سے زائد بار ایسا ماحول بنا دیا تھا جس سے مقتدر حلقے بھی پریشانی کا شکار ہوگئے تھے ایک مرتبہ تو مذہبی کارڈ کھیل کر ساری بساط لپیٹنے پر ہی تل گئے تھے۔ مگر پیپلز پارٹی کی بے وفائی اور مسلم لیگ ن کی مصلحت پسندی نے سارا دباؤ ختم کردیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگا کر ہلہ بولنے کے بجائے مخالفین کے کمزور ہونے کا انتظار کیا جانا چاہئے۔ انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ اگر احتجاجی تحریک اور دھرنا کامیاب نہ ہوسکا تو ریاستی ادارے پوری قوت سے جوابی کارروائیاں کریں گے۔ اگر یہ کمزوری ہے تو اس کی ذمہ دار بھی لیگی قیادت خود ہے۔ جس نے اپنے دور اقتدار میں تمام سازشوں کو دیکھتے ہوئے بھی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنایا نہ ہی کارکنوں کے ساتھ رابطہ رکھا۔ مشاورت کا دائرہ بھی چند افراد تک محدود رہا۔ ارکان اسمبلی تک اس روئیے سے نالاں تھے۔ خصوصاً شہباز شریف کے اردگرد ایسے عناصر پائے گئے جن کی وابستگیوں کے بارے طرح طرح کے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ سو تجزیہ یہی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف ان تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باعث معاملہ فہمی سے راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مریم نواز کی عوامی مقبولیت اور جوشیلے خطاب پارٹی کے حامیوں کے لئے ڈھارس کا سبب ہیں۔ شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی انتخابی امیدواروں کو 2023 تک امید کی کرن بن کر نظر آتی رہے گی۔ اگلے عام انتخابات سے پہلے نواز شریف وطن واپس آکر جیل چلے بھی گئے تو سیاسی ہلچل ن لیگ کو مضبوطی فراہم کرے گی۔ایک ایسی جماعت جس سے کئی ترقیاتی منصوبے منسوب ہوں۔ جس کی قیادت بین الاقوامی سطح پر جانی جاتی ہو اور کئی غیر ملکی سربراہوں سے تعلقات بھی رکھتی ہو۔ اسکی مقبولیت اور ووٹ بنک کو ختم کرنا کم و بیش ناممکن ٹاسک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آزاد کشمیر الیکشن کا میتھڈ استعمال کرکے جیتنے والے ارکان کی تعداد بہت محدود کردی جائے۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ن لیگ کی کو بکھیرنے کے متعلق منصوبہ سازوں کی خواہشات مستقبل قریب میں بھی پورا ہونے کا امکان نہیں۔ اب انہی تمام خدشات کو بھانپتے ہوئے پیش بندی کے طور پر پی ڈی ایم کو فعال کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں مولانا فضل الرحمن کے لہجے میں وہی گھن گرج سنائی دی جو تحریک کے عروج کے دنوں میں سننے کو ملتی تھی۔ 29 اگست کو کراچی میں جلسہ عام کا اعلان کردیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد جس قدر متحرک ہوگا حکومت کے لئے اتنی ہی پریشانیاں بڑھیں گی۔ اگر تحریک کا ماحول بن گیا تو سارا منظر بدل سکتا ہے۔