اسلام آباد : سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل کا کہنا ہے کہ والیم ٹین میں شریف خاندان کے مختلف ممالک میں مالی معاملات کے ثبوت ہیں اس میں ریاست کے خلاف والی کوئی بات نہیں تھی۔
جسٹس (ر) اعجاز افضل نے کہا جب میں تین رکنی بینچ کا سربراہ بنا تو ن لیگ کی جانب سے مٹھائی تقسیم کی گئی۔انہوں نے کہا کہ دوران سماعت اقامہ اور کمپنی سے معاہدہ سامنے آیا جسے وکلا نے تسلیم کر لیا، تنخواہ نواز شریف کے اکاؤنٹ میں آتی رہی لیکن اس کو ظاہر نہیں کیا گیا، قانون کہتا ہے کہ کاغذات جمع کراتے وقت پچھلے سال جون تک اثاثے ظاہر کرنے ہیں، تنخواہ جنوری 2013 میں واپس کی گئی مگر جون 2012 کو تنخواہ لے رہے تھے جو ظاہر نہیں کی گئی۔
اعجاز افضل کے مطابق یہ بھی نہیں کہا گیا تھا کہ تنخواہ ظاہر کرنا بھول گئے تھے، اگر یہ کہتے کہ بھول گئے تھے تو پھر معاملے کو دیکھا جا سکتا تھا، میں کسی کی بھی ساری زندگی کے لیے نااہلی کے خلاف ہوں، قطری خط ایک مفروضہ تھا جس کو نواز شریف ثابت نہ کر سکے۔انھوں نے کہا جب وہ اصل دستاویز جے آئی ٹی نے لی تو معاملہ کھلا، 2006 میں تو کیلبری فونٹ کمرشل ہی نہیں تھا. اسی دوران اقامہ سامنے آ گیا اور اس میں ایک معاہدہ اور کمپنی آ گئی، کمپنی میں نواز شریف کو بورڈ آف گورنر کا چیئرمین بنا کر 10 ہزار درہم ماہوار تنخواہ مقرر ہو گئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ 2006 سے شروع یہ تنخواہ جنوری 2013 تک نواز شریف کے اکاؤنٹ میں جاتی رہی، نواز شریف کے وکلا خواجہ حارث اور سلمان اکرم سے پوچھا گیا تو دونوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا، تنخواہ نکلوائی نہیں گئی لیکن نکلوانے کا اختیار رکھتے تھے اور وہ انھی کی ملکیت تھی، اگر یہ نواز شریف کی ملکیت نہیں تھی تو بیٹے کو لاکھوں درہم کیسے واپس کر دیے۔
جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل کے مطابق ہم نے کہا یہ مستقبل کی تنخواہ کی بات نہیں بلکہ ساڑھے 6 سال یہ تنخواہ لیتے رہے، قانون کہتا ہے کاغذات جمع کراتے وقت پچھلے سال جون تک کے اثاثے ظاہر کرنے ہیں، نورے گامے کو اثاثے چھپانے پر سزا ہو سکتی ہے تو نواز شریف کو کیوں نہیں؟