میں شہبازشریف کو کم و بیش پچیس برس کے عرصے سے جانتا ہوں اور یہ مدت کسی کے بارے میں رائے بنانے کے لئے کم نہیں ہوتی۔ آج جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو شہباز شریف، پاکستان کے، تئیسویں وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں اور ایک ایسی حکومت کی سربراہی کررہے ہیں جس میں پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت بہت سارے شامل ہیں۔ آپ اس پر ہر طرح کے تبصرے کر سکتے ہیں ، یہ بھی کہ ایک مخلوط اور مشکل حکومت ہو گی اور یہ بھی کہ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے کا ایک نیا اور میچور دور شروع ہو رہا ہے۔
میری شہباز شریف سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ اچانک پنجاب کے وزیراعلیٰ نامزد ہوئے تھے۔ ایک عام سیاسی تجزیہ کار کے طور پر میرے لئے یہ حیران کن تھا کہ وفاق میں بڑا بھائی وزیراعظم ہو اور چھوٹا بھائی وزیراعلیٰ مگر مجھے اس سے بھی زیادہ حیرانی ان کے کام کرنے کے انداز اور رفتار پر ہوئی تھی۔ مجھے آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر مسلم لیگ نون ’خدمت کو عزت دو ‘ کا نعرہ لگاتی ہے تواس کی بنیاد شہباز شریف کی محنت اور کارکردگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں نے کراچی سے آنے والوں کو لاہور کی سڑکوں، باغوں اور عمارتوں کو یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھتے ہوئے دیکھا ہے جیسے وہ کسی دوسرے ملک آ گئے ہوںاور یہ ترقی صرف لاہور کی نہیں بلکہ پنجاب کے دور دراز کے شہروں کی بھی ہے۔ آج میٹرو صرف لاہور میں نہیں ہے پنڈی میں بھی ہے اور ملتان میں بھی ہے۔
پی ٹی آئی کے نفرت اور تعصب سے بھرے لوگ بہت سارے الزامات لگاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس ساڑھے تین سال تھے او ر اس سے بھی پہلے سازش کے کئی سال۔آپ اس پورے عرصے میں کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیں کر سکے۔ فوادچوہدری شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسوں پر رننگ کمنٹری کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ سیاسی ماحول میں جتنی گندگی ان مقدمات نے ڈالی ہے اس کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی۔ شہباز شریف اس لئے عدالتوںمیں حاضر ہو رہے تھے کہ ایک منتقم مزاج فسطائی حکومت نے جھوٹے اور ناجائز مقدمات کا انبار لگا رکھا تھا۔ شاہ محمود قریشی صرف اس لئے وزیراعظم کے عہدے کے لئے کاغذات کو مسترد کروانا چاہتے تھے کہ شہبازشریف ضمانت پر تھے۔ اگر الزام لگانا ہی کافی ہے تو پھر عدالتوں کو بندکر دینا چاہئے ۔ میں خا ص طور پر لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے شہباز شریف اور سعد رفیق کی ضمانت کے فیصلے یاد کروانا چاہوں گا، وہ فیصلے بلاشبہ پی ٹی آئی حکومت اوراس کی کٹھ پتلی نیب کے خلاف چارج شیٹ ہیں۔ وہ فیصلے ایسے تھے جن کی بنیاد پر نیب کے ذمے داران اور حکومت کی طرف سے ایسے مقدمات کی ڈیزائننگ کرنے والوں کو صرف استعفے ہی نہیں دینے چاہئیں تھے بلکہ ان میں کچھ شرم حیا ہوتی تو خود کشی کر لینی چاہئے تھی۔
بطور کارکن صحافی میں نے شہباز شریف کو ا نتھک طریقے سے اور نہایت ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں پاکستان کا حال دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ اسے شائد نہ کسی سیاستدان کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی فوج کی، اسے ایک ایڈمنسٹریٹر کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بات اہم نہیں ہے کہ پی ٹی آئی دور کی مچائی ہوئی تباہی کے بعد آصف علی زرداری جیسے کائیا ں اور جہاں دیدہ سیاستدان نے بھی ملک بچانے کے لئے جس کی صلاحیتوں پر اعتماد کررہا ہے وہ شہباز شریف ہیں۔ شہباز شریف کے چین سے ترکی اورسعودی عرب سے امریکا تک ہر ملک کی قیادت سے بہترین تعلقات ہیں اور ان کے ذریعے ہم اپنی خارجہ پالیسی کے گذشتہ چار، پانچ برسوں میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔
میری شہباز شریف کے حوالے سے آبزرویشنز بہت دلچسپ ہیں جیسے بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف بہت نرم دل اور شہباز شریف بہت سخت دل ہیں۔ میری برس ہا برس کی آبزرویشن یہ ہے کہ شہباز شریف کا دل چڑیا سے بھی نرم ہے۔ وہ جذباتی معاملوں پر باقاعدہ روہانسے ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جہا ں کہیں بھی ظلم ہوتا ہے اس کی مذمت اور ظالموں کے ہاتھ روکنے کے لئے خود پہنچ جاتے ہیں۔ اپنی پہلی تقریر میں ہی بدترین معاشی حالات کے باوجود تنخواہوں اور پینشن میں دس فیصداضافہ اور کم از کم تنخواہ کا پچیس ہزار روپے کر دینا اس کا واضح ثبوت ہے۔ شہباز شریف کی سختی کی کہانیاں ایک طرف رہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پوری شریف فیملی میں سب سے زیادہ تنقید سننے اور برداشت کرنے والے ہیں۔ مجھے بہت بری عادت ہے کہ مجھے سوا ل پوچھنے کا موقع ملے یا مجھ سے مشورہ مانگا جائے تو میں منافقت سے کام نہیں لے سکتا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے بڑے بڑے قریبی بیوروکریٹس ان کے پاس بڑے بڑے منصوبے لے کر آئے مگر انہوں نے اس پر نہ صرف تنقید سنی بلکہ وہ فیصلہ کیاجو آئین، قانون اور انصاف کے مطابق تھا۔ یہ لوگ کرپشن کی باتیں کرتے ہیں اور میرے پاس تفصیلات موجود ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہی شوگر ملوں کے منافعے کو اپنے اقدامات سے روکا اور بعض جگہوں پر باقاعدہ نقصان پہنچایا مگر اپنے پورے دورمیں چینی مہنگی نہیں ہونے دی سویہ شہباز شریف ہی ہیں جو ادویات، پٹرول ، سیمنٹ اور اس جیسے دوسرے مافیاں کو نکیل ڈال سکتے ہیں۔شہبازشریف کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر شہباز شریف وفا نہ نبھاتے تو آج سے پندرہ، بیس برس پہلے ہی وزیراعظم بنے ہوتے۔ انہوں نے یہ قربانی صرف اپنے بھائی کی محبت اور وفاداری میں دی۔
نواز لیگ کے لئے شہباز شریف کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے مہم جوئی کے قائل نہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو غلطیاں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف نے کیں، وہی عمران خان نے دہرا دیں مگر شہباز شریف جانتے ہیں کہ کام کیسے کرنا ہے۔ وہ حقیقت پسند ہیں اور ان کے دماغ میں طاقت کا فتور نہیں گھستا سو یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی ایسا بحران پیدا نہیں کریں گے جو ہمارے زمینی حقائق کے منافی ہو۔ پاکستان کی سیاست اور کاروبار کی دنیا شہباز شریف کو اچھی طرح سے جانتی ہے، ان پر اعتبار کرتی ہے، ان سے امید رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی انہوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ سٹاک مارکیٹ سترہ سو پوائنٹس اوپر چلی گئی تھی اور خود سر ڈالر نے کسی حکم کے بغیر ہی ہتھیار ڈال دئیے، اکٹھے آٹھ روپے نیچے آ گیا، ابھی یہ مزید نیچے لگے گا۔
شہباز شریف ایوان وزیراعظم میں بیٹھے ہوئے ہیں تو آپ اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کا یقین رکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ سوچ کر اطمینان سے سو سکتے ہیں کہ آپ کا وزیراعظم جاگ رہا ہے۔ میں شہباز شریف کو جانتا ہوں لہٰذا کہہ سکتا ہوں کہ اب میرا ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ امن، ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہونے والا ہے، قائد کے خوابوں کے مطابق ایک حقیقی پاکستان بننے والا ہے۔
میں شہباز شریف کو جانتا ہوں
09:12 AM, 13 Apr, 2022