دودہائیوں سے قائدِایوان بدلنے کے باوجود اسمبلیاں اپنی مدت پوری کررہی ہیں ایک اور بڑی تبدیلی مقننہ پر عدلیہ کا حاوی ہوناہے قبل ازیں عدلیہ نے اگر توڑی گئی اسمبلی بحال کی تو طاقتور شخصیات نے فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور بالاآخر وہی ہوا جو طاقتور لوگوں یا اِداروں نے چاہا مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے عدالتوں سے وزرائے اعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ آتا ہے تو وہ فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے گھر چلے جاتے ہیں یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف عدالتی فیصلوں سے ہی عہدوں سے محروم ہوئے اول الذکر تو پھر بھی خاموش رہے مگر ثانی الذکرنے عدالتی فیصلے کے خلاف عوامی عدالت میں جاکر مجھے کیوں نکالا کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کی اِس اپیل کا اُنھیں یہ سیاسی فائدہ ہواکہ نہ صرف جماعت شکست و ریخت سے بچ گئی بلکہ تما م تر پراپیگنڈے کے باوجودعوامی مقبولیت بھی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے عوامی رابطہ مُہم کے دوران انھوں نے عسکری قیادت کا نام لیکر اُن کے کردارکو ہدفِ تنقید بنایا اِس رابطہ مُہم سے مجھے کیوں نکالا کا جواب تو نہ مل سکا البتہ عوامی ہمدردی ضرور مل گئی جس کے سہارے عدالتی نااہلی کے باوجود وہ آج بھی ملک کی طاقتورسیاسی شخصیت ہیں۔
حالیہ عدالتی فیصلوں سے پارلیمنٹ کی سُپر میسی کو نقصان پہنچاہے کیونکہ عدلیہ نے ایوان کی کارروائی اور اجلاس کے متعلق بھی ہدایات جاری کرنا شروع کردی ہیں اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدمِ اعتماد کی تحریک پر کاروائی کرانے کے لیے تاریخ کا تعین اِس امر کی واضح دلیل ہے کہ عدلیہ بالادست اور پارلیمنٹ زیردست ہوگئی ہے فیصلے پر عملدرآمدمیں تاخیر کا تاثربننے پر رات کو عدالتوں کی طرف سے کاروائی کا عندیہ سامنے نہ آتا تو شایدحالیہ پُرامن انتقالِ اقتدار کی بجائے عام انتخابات کا ماحول بن گیا ہوتا ۔
نواز شریف کی طرح عمران خان نے مجھے کیوں نکالا جیسا سوال تو نہیں پوچھا البتہ یہ بتانا شروع کر دیا ہے کہ مجھے اِس لیے نکالا گیا ہے کہ میں نے آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی کی بات کی عالمی طاقتوں کی مرضی و منشا کے مطابق چلنے کی بجائے ملکی مفاد کے مطابق پالیسیاں بنائیں اسی پاداش میں اقتدار سے محروم کیا گیا ہے مجھے کیوں نکالا سے لیکر مجھے اِس لیے نکالا گیا تک کے سفر میں ایک یہ واضح ہے کہ خرابی کی وجہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کے بے لچک رویے ہیں اگر افہام و تفہیم کی راہ پر چلتے ڈیڈ لاک کی بجائے ڈائیلاگ کا طرزِ عمل اپناتے تو نہ صرف پارلیمنٹ کی سُپر میسی قائم رہتی بلکہ کسی کو مداخلت کی ہمت نہ ہوتی جب سیاستدان اپنے سیاسی مسائل آپس میں بات چیت سے حل کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں تو ناکامی اور نااہلی کا تاثر گہرا ہو تا ہے جس سے مقننہ میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار ہوتی ہے اگر سیاستدان رویوں میں لچک لے آئیں تو کسی کو مجھے کیوں نکالا جیسا سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور نہ ہی یہ بتا کرعوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے خوار ہونا پڑے گا کہ مجھے اِس لیے نکالا گیا ہے اِس
کے لیے کچھ زیادہ نہیں حکمت و تدبر اور ا فہام و تفہیم سے کام لینے کی ضرورت ہے شہباز شریف نے سب کے لیے قابلِ قبول ہونے کا تاثر دے کر ہی موجودہ کامیابی حاصل کی ہے۔
عہدوں سے محرومی کے بعددو الگ الگ جماعتوں کی قیادت کے باوجود نوازشریف اور عمران خان کی پالیسیوں میں کچھ خاص فرق نہیں دونوں ہی اِداروں سے ناخوش ہیں دونوں کے حمایتی بھی عدالتی فیصلوں کے باوجود اقتدار کی تبدیلی کا ذمہ دار عسکری قیادت کو قرار دیتے ہیںدونوں نے ہی ایوانِ وزیراعظم سے نکل کر عوام کے پاس جانا اپنے مسائل کا حل سمجھاہے نوازشریف نے جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر میں عوامی ہمدردی حاصل کر نے کی کوشش کی اب عمران خان کراچی اور پشاورسے جلسوں کا آغازکر کے اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں لے جانے والے ہیں عوام کے پاس جانا اچھی بات ہے لیکن اِداروں پر الزام تراشی غلطیاں ہیں جنھیں دُہرانے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا سیاسی جماعتوں نے عسکری قیادت کو سیاسی فیصلوں کا ذمہ دار قرار دینے کی روش ختم نہ کی تو اِس خطرناک روش کے مُضر اثرات سے ملک کی وحدت و سلامتی متاثر ہو سکتی ہے سیاسی قیادت اپنے سیاسی عزائم ومفاد کے لیے عسکری قیادت کی طرف نہ دیکھے تو کسی کو مداخلت کا موقع ہی نہ ملے مگر ہوتا یہ ہے کہ سیاسی مسائل بات چیت سے حل کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفاد کے خول میں بندسیاستدانوں کا جماعتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دینا مسائل کا موجب بنتا ہے جس سے بیرونی مداخلت کی راہ ہموار ہوتی ہے جس کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرانے کی بجائے سیاستدانوں کی ناکامی کہناہی زیادہ قرین قیاس ہے۔
قبل ازیںجو بھی حکومت تبدیل ہوئی اُس پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگاکر ملک کے سیاسی و معاشی مسائل کے حل کے لیے تازہ عوامی رائے لینے کا فیصلہ کیا گیا مگر عمران خان کو رُخصت کرتے ہوئے ایسے الزامات کی بازگشت سنائی نہیں دی بلکہ اُنھیں بدزبانی اور غیر ضروری خودپسندی وخود اعتمادی لے ڈوبی ہے انھوں نے سفارتی معاملات کو بھی عوامی جلسوں کی زینت بنا دیا جس سے کئی ملکوں سے پاکستان کے تعلقات بُری طرح متاثر ہوئے اسی لیے دنیا کا معروف چہرہ ہونے کے باوجود وہ عالمی سطح پرپسندید ہ نہ بن سکے حالانکہ اسلاموفوبیا کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے پر مسلم امہ میں اُن کی قدر و منزلت بڑھی ہے اندرونِ ملک فلاحی اقدامات صحت کارڈ ،پناہ گاہیں،احساس راشن پروگرام، پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر سے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوا جس کا عکس وزارتِ عظمٰی سے محرومی پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مظاہروں کی صورت میں نظرآیا مگر پنجاب میں عثمان بزدار جیسے نو آموز پر تکیہ کرنے سے سیاسی نقصان اُٹھایا نواز شریف نے بھی پنجاب کو قابومیں رکھنے کے لیے غلام حیدروائیں کی شکل میں کمزورمہرہ آگے بڑھایاجو غلام اسحاق خان کی مخالفت کے دوران کچھ مدد نہ دے سکا اِسی فیصلے نے منظور وٹو کو وزارتِ اعلٰی کے منصب پر پہنچایااب عثمان بزدار کی وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی قوت قابلِ رحم ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سیاسی قیادت فیصلے کرتے ہوئے میرٹ کی پاسداری کرے توانھیں مجھے کیوں نکالا اور مجھے اِس لیے نکالا جیسی باتیں کرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
نواز شریف اور عمران خان میں ایک اور قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ جب کرپشن ،منی لانڈرنگ جیسے الزامات لگ رہے تھے تواول الذکر نے عدالت میں سامنا کرنے کی بجائے عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر مرضی کے مطابق فیصلہ لینے کی کوشش کی عمران خان بھی عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد عین جب اتحادی حکومتی صفوں سے اپوزیشن کی طرف جارہے تھے تو منانے کی بجائے جلسوں میں مصروف ہوگئے عوامی مقبولیت پر تکیہ کرنا بہت اچھی بات ہے مگرکچھ کام فردِ واحد کے کرنے والے ہوتے ہیں آج جب وہ ہر جگہ بتارہے ہیں کہ مجھے اِس لیے نکالا گیا ہے تو اُنھیںسوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ تمام اِداروں کی پسندیدگی چاربرس تک بھی کیوں برقرار نہ رہ سکی اورا تحادی کیوں اتنی جلد ی خیر باد کہہ گئے؟ اگر انھوں نے غلطیاں سمجھ لیں تو عوامی مقبولیت کے سہارے دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیںکیونکہ فوری یا جلد انتخابات ہوتے ہیں تو اُنھیں شکست دینا مشکل ہے اسی لیے موجودہ حکمران اتحاد عوام کے پاس جانے سے گریزاں ہے لیکن دیرپا حکومت غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہی ممکن ہے۔