محمد شہباز شریف، مملکت پاکستان کے 23ویں منتخب وزیراعظم بن چکے ہیں۔ شہباز شریف طویل سیاسی سفر کرنے، سیاسی و عوامی جدوجہد کرنے، اقتدار اور اپوزیشن کی سیاست کرنے، جلاوطنی اور ریاست جبر کا سامنا کرتے کرتے بالآخر سیاست کی حتمی بلندی، وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں۔ قوم کو ان سے بہت سی نہیں بلکہ تمام امیدیں وابستہ ہیں۔ قوم کے پاس وہ ’’آخری امید‘‘ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر وہ، یعنی اپوزیشن، سیاسی فیصلہ کرتی تو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کبھی نہ لاتی ، کیونکہ کسی بھی حکومت کو ، اس کی شہرت کی پست ترین سطح پر اقتدار سے نکالنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہوتا ہے۔ عمران خان کے بارے میں، ان کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں دو آراء ہرگز نہیں پائی جاتی ہیں۔ عمران خان گزرے 44 ماہی دورِ حکمرانی کے دوران سوائے بدکلامی، بدتہذیبی اور ملکی سیاست کو گدلا کرنے کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے نام پر کرپشن کو اپنی حکومتی سرپرستی میں فروغ دیا ہے۔ قومی معیشت اور انفرادی معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہو چکے ہیں۔ عمران خان کرپشن کے خاتمے کے نعرے کو صرف اپوزیشن کو ڈرانے اور دبانے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کرپشن مقدمات کو سیاسی انداز میں استعمال کیا جاتا رہا ہے کسی ایک فرد پر بھی کرپشن ثابت نہیں کی جا سکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے ایک مقدمے میں سزا پانے والے نوازشریف کو عمران خان لندن جانے سے بھی نہیں روک سکے۔ بہرحال عمران خان کی 1996 میں شروع ہونے والی جدوجہد اور تبدیلی کے بیانیے کی کامیابی کے بعد 2018 میں اقتدار حاصل کرنے کا قصہ سردست تمام ہو چکا ہے۔ انہوں نے 22 سال تک ’’تعمیر پاکستان بذریعہ تبدیلی نظام‘‘ کے بیانیے کے ذریعے پاکستانیوں کے دلوں میں تمنا اور دماغوں میں امید کی جوت جلائی تھی وہ پارلیمان میں گزشتہ روز ان کے اجتماعی استعفوں کے بعد مکمل طور پر بجھ چکی ہے۔ انہوں نے ایک نسل کو ناامیدی اور ناکامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام کو حالیہ بدحالی سے نکال کر ایک پرامید مستقبل کی طرف لیجانے اور ملک کو بلیک لسٹ ہونے اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور انہیں ایوان اقتدار سے باہر نکالنے کا غیرسیاسی فیصلہ کیا اور اللہ کے فضل وکرم سے کامیاب
ہوئی۔ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب جلیلہ سنبھال چکے ہیں اور ملک و قوم کو نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ لے کر روشن مستقبل کی طرف لے جانے کے سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔
شہباز شریف نے قوم کو کوئی ایسی غیرحقیقی یا لاحاصل امید نہیں دلائی ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے، وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے، کوئی مہم بھی نہیں چلائی کہ وہ منشور پیش کرتے اور قوم سے وعدے وعید کرنے پڑتے۔ اس لئے وہ کسی قسم کے عہدوپیمان سے مبرا ہیں لیکن قوم نے ان سے اپنی تمام امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جو وہ عمران خان سے وابستہ کر چکی تھی یہاں ایک اہم فرق سامنے رکھنا ضروری ہے کہ عمران خان اپنی فصاحت اور بلاغت کے ذریعے قوم کی امیدوں کو بہت بلند سطح تک لے گئے تھے۔ 50 لاکھ مکان، 1 کروڑ ملازمتیں، کرپشن کا خاتمہ، کرپٹ عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانا، ملک کو ترقی کرتا ہوا خوشحال بنانا جیسے سنہری خواب دکھائے لیکن عملاً ایسا کچھ بھی نہیں کر سکے۔ ان کی 22 سالہ جدوجہد اور خوشنما بیانیہ، ساڑھے تین سالہ کارکردگی میں دفن ہو گیا ہے اب عمران خان غیرملکی سازش کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمے کے بیانیے کو تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعظم اپنے اولین خطاب میں یہ کہہ کر کہ ’’وہ اس خط کی مکمل تحقیقات کرائیںگے جس میں تمام ذمہ دار ریاستی اداروں کے نمائندے شریک ہوں گے اور اگر عمران صاحب کی بات درست ثابت ہو گئی تو وہ یعنی شہباز شریف مستعفی ہو جائیں گے‘‘۔ عمران خان کے نوتشکیل کردہ بیانیے کی پذیرائی کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔قوم نے شہباز شریف سے اپنے مسائل کے حل کے لئے جو امیدیں وابستہ کی ہیں ان کی بنیادیں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے تین ادوار بشمول جون 2013۔ جون 2018، جون 2008۔ مارچ 2013 اور فروری 1997 تا اکتوبر 1999 کے دوران ان کی شاندار کارکردگی میں پوشیدہ ہیں۔ پنجاب کے عوام نے ان ادوار میں حقیقی تعمیروترقی کے شاندار مظاہر دیکھے۔ صوبہ پنجاب ترقیاتی و تعمیراتی کاموں میں سب صوبوں پر بازی لے گیا۔ شاندار محکمانہ کارکردگی اور مثالی لاء اینڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھنے کی پالیسی نے ان ادوار کو یادگاربنایا۔ سیلاب ہو، بارشیں ہوں یا کوئی اور عوامی مسئلہ ہو شہباز شریف سب سے پہلے پائے جاتے تھے۔ عوام کی دادرسی کے حوالے سے بھی شہباز شریف نیک نامی کے حامل رہے ہیں، میگا پراجیکٹس کی تشکیل اور انہیں بروقت تکمیل کو پہنچانا شہباز شریف کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ یہاں شہباز شریف کی کارکردگی کو نمایاں کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ان کی کارکردگی کے حوالے سے ان کے بارے میں پائے جانے والے عوامی تاثر کا ذکر کرنا مقصود ہے جس کے باعث عوام نے ان سے بطور وزیراعظم بھی اپنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ وزارت عظمیٰ خاصی مشکل ہے۔ شہباز شریف کو کارکردگی کے حوالے سے اپنے ہی قائم کردہ ریکارڈ توڑنے کے لئے سرتوڑ کاوشیں کرنا ہوں گی۔ اپنے اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ انہوں نے بھی جو امیدیں ان کے ساتھ وابستہ کر رکھی ہیں انہیں بھی پورا کرنا ہو گا۔ اور سب سے اہم اور مشکل کام ’’ناکام اور نامراد‘‘ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کی منفی سیاست سے بچنا ہو گا۔ عمران خان کی انکار اور تصادم کی منصوبہ سازی سے بچ بچا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ شہباز شریف آخری امید کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کی کامیابی، عوام کی کامیابی ہو گی۔ پاکستان کی کامیابی ہو گی۔ کامیابی کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ اللہ رب الکریم پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ یا رب العالمین۔