یہ مولاناہی تھے جنھوں نے سونامی کے آگے بند باندھا، صرف بند ہی نہیں باندھابلکہ اس سے ٹکراگئے اورایسے ٹکرائے کہ سونامی کو واپس کرکے چھوڑا۔سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑی جب شکست تسلیم کرکے ڈھیرہوگئے تومولانانے شکست تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہوئے اناالحق کانعرہ بلندکیا۔ایسے وقت میں مولانانے یہ نعرہ مستانہ بلندکیاتھا کہ جب تبدیلی کاخمارتازہ تازہ تھا تبدیلی کے خلاف بات کرنے پرلوگ منہ موڑلیتے تھے،طعنے دیتے تھے، اسٹیبلشمنٹ ،صحافی ،عالمی طاقتیں ،دوست ممالک سبھی عمران نیازی کے آگے بچھے جا رہے تھے، عمران خان کے نازونخرے اٹھا رہے تھے حیران کن منظریہ تھا کہ سعودی سفیرایک دن میں دو دو مرتبہ بنی گالہ کی یاتراکر رہا تھا تکبروغرور کاپہاڑبنی گالہ کے پہاڑپربراجمان تھا۔ اپوزیشن جماعتیں سہمی ہوئی تھیں ن لیگ، پیپلز پارٹی کے کارکن و ووٹرزمایوس تھے ،
ویسے تو2018کے الیکشن سے قبل ہی تحریک انصاف کی جیت کے لیے خفیہ ہاتھ کام کررہاتھا مگر25جولائی کی رات جوواردات کی گئی اس میں بھی بات نہ بنی توجہانگیرترین میدان میں اترے انہوں نے کھرے کھوٹے کی پہچان کیے بغیر لوٹ سیل لگادی اپنے جہازکورکشہ بنادیاممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو بنی گالہ میں مشرف باعمران کرواکرعمرانی حکومت کی راہ ہموارکی ، تبدیلی کی ہوائیں ہی نہیں جھکڑچل رہے تھے جیت کانشہ ایساتھا کہ خان صاحب ہوائوں میں اڑرہے تھے ، مگرمولانا ان سب باتوں سے بے پرواہ ہوکرپی ٹی آئی کی حکومت کوپوری جرات سے للکارااورمیدان میں نکل پڑے ۔
یارلوگوں نے طعنہ دیاکہ اقتدارسے نکلنے کے بعدمولاناکادماغ مائوف ہوگیاہے یہ اقتدار کے بغیر زندہ رہ ہی نہیں سکتا مگر مولانانے ان سب باتوں کی پرواہ کیے بغیراپنے کارکنوں سے رابطہ کیا ایک طرف تبدیلی کا غلغلہ تھا تو دوسری طرف مولاناکافلسفہ تھا ۔وقت وحالات نے ثابت کیاکہ مولانانے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اورحکومت مخالف تحریک کاجومشورہ دیاتھا وہ درست تھا مگرپلوں کے نیچے سے پانی بہہ چکاتھا بعدکے واقعات سے یہ نتیجہ اخذہواکہ اپوزیشن رہنمائوں کی سیاست فیل ہوگئی ہے اب مولاناکی سیاست چلے گی ۔پھرایک وقت آیاکہ مولانااپوزیشن تحریک کے سرخیل بن گئے ۔
مولانا کی سیاسی زندگی کاایک نیادورشروع ہواملک کے نامورسیاستدانوں اورجمعیت علماء اسلام سے کئی گنابڑی جماعتوں نے مولاناکی جرات ،بہادری ،استقامت،دوراندیشی اوربصیرت کودیکھتے ہوئے انہیں اپناامام بنالیااپوزیشن جماعتیں مولاناکے پیچھے ہاتھ باندھ کرکھڑی ہوگئیں اگرچہ اس تحریک میں کئی مرتبہ اتارچڑھائوآیااہم موقع پرپاکستان پیپلزپارٹی ساتھ چھوڑگئی سینٹ میں اپوزیشن سے ہاتھ ہوامولانابھرپورلانگ مارچ لے کر اسلام آبادپہنچے مگرپیپلزپارٹی اورن لیگ نے ان کاساتھ نہیں دیااسلام آباددھرنے میں چوہدری پرویزالہی نے دھوکہ دیامگر70سالہ یہ بوڑھاشیرکبھی بھی مایوس اوردلبرداشتہ نہیں ہوا ۔
وہ تنکاتنکاجوڑکرآشیانہ بناتے رہے ،تنی ہوئی رسی پرچل کراپوزیشن جماعتوں کواکٹھاکرتے رہے
دوسری طرف حکومت نے مولاناکوقابوکرنے کے لیے متعددمنصوبے بنائے ،نیب کی فائلیں کھولی گئی ،ایف آئی کومتحرک کیاگیا اینٹی کرپشن والوں کوٹاسک دیاگیاخفیہ اداروں سے ریکارڈ منگوایاگیا مگریہاں سے کچھ ہاتھ نہ آیاتومولاناکے دوستوں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے انہیں ہراساں کیاگیا کچھ رہنمائوں کو گرفتاربھی کیا گیا مولانا کی طاقت مسجد ومدرسہ سے چھیڑخانی کی گئی مدارس کی طاقت کو تقسیم کیا گیا مگر مولانا قابو نہ آئے۔
ایک وقت ایسا بھی آیاکہ عمران نیازی نے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہاکہ مولانافضل الرحمن اسمبلی سے باہرمیرے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہورہاہے حکومت نے مولاناکورام کرنے کی بھی کوششیں کی ،حکومتی زعماء نے مولاناسے ڈیل کرنے کے لیے ہاتھ بھی آگے بڑھایا ،اس حوالے سے مقتدراداروں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں مگرمولانانے کہاکہ جعلی طریقے اورجعلی مینڈیٹ سے بنائی گئی حکومت سے ہاتھ نہیں ملایاجاسکتا۔
یہاں سے مایوس ہونے کے بعدحکومت نے مولانا کی جماعت پرڈرون حملہ کیا۔مولاناکی جماعت میں شامل بزرگ رہنمائوں کو ورغلایا گیا انہیں سنہرے خواب دکھائے گئے مولاناکی جماعت کے مقابلے میں بیساکھیوں کے سہارے نئی جماعت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی مولانایہاںبھی نظررکھے ہوئے تھے ایک ہی وارسے حکومت کے تمام حربے ناکام کردیئے ۔یہاں سے ناکام ہونے کے بعد حکومت نے روایتی درباری ملائوں کوتلاش کیامگرایک آدھ کے علاوہ یہاں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی عمران نیازی نے ریاست مدینہ کانعرہ لگایاتو مولاناطارق جمیل جیساداعی بھی دھوکہ کھاگیامگریہ حربہ بھی زیادہ نہ چل سکا۔
اس سب کے باوجود حکومت کے خلاف مولاناکی تحریک چلتی رہی مولانانے تمام بڑے شہروں میں لاکھوں افرادپرمشتمل ملین مارچ کیے مگرمیڈیانے کم ظرفی سے کام لیایاحکومتی دبائوتھا کہ انہیں کوریج نہیں دی ۔تمام حربو ں میںناکامی کے بعدحکومت نے مولانا کا میڈیا ٹرائل شروع کیا زہریلاپروپیگنڈہ کیاگیا جھوٹی پوسٹیں اور مولاناکے انٹرویوزکی ویڈیوزکاٹ پیٹ کرسوشل میڈیاپرپھیلائی گئیں اورآخرمیں عمران نیازی خود میدان میں اترے انہوں نے کھلے عام مولانا کو برے القابات سے پکارناشروع کیا شہبازگل جیسے مسخرے سامنے آئے، ترجمانوں کوٹاسک دیاگیاکہ وہ مولاناکے خلاف منفی مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں،نام نہادیوٹیوبرزاکٹھے کیے گئے انہیں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے فنڈز دیئے گئے۔ مگر مولانا اپناکام کرچکے تھے ۔
آج ایک زرداری سب پربھاری کی سیاست اپنی جگہ ،میاں شہبازشریف کی جوڑتوڑکی مہارت اپنی جگہ ،مگرجس کڑے وقت میں مولانانے میدان میںنکل کر عوام کومتحرک کیااپنے کارکنوںکی قربانیاں دیں ،حکومت ،انتظامیہ اورموسمی سختیاں برداشت کیں ،تنقیدکے تیرسہے ،اپنوں کی بے وفائیوں کوبرداشت کیاکارکنوں کوپرامن رکھا یہ مولاناکاہی کمال تھا اورآج اگرعمران خان اقتدارسے رخصت ہواہے توسب کومانناپڑے گاکہ اس تحریک کاسرخیل واقعی مولانافضل الرحمن تھا ۔
سچائی کے قدموں پر سرِ فتح و ظفر ہے
جرات بھی اسی سمت ہے، ایمان جدھر ہے