میلان ایک صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے اٹلی کادوسرا بڑاشہر ہے۔ عالمی تجارتی نیٹ ورک کاحصہ ہونے کے باعث اسے گلوبل سٹی بھی کہاجاتاہے گلوبل سٹی ہی پاورسٹی ،ورلڈ سٹی یاالفا سٹی بھی کہلاتاہے۔ میلان کی سرزمین توقدیم ہے لیکن یہ شہر نسبتاً نیاہے اس لیے اٹلی کے دوسرے مقامات کی طرح تاریخی آثارسے’ لبریز‘ نہیں ہے، اس لیے ہمارے سفرنامہ نگار وں کی بھی اس شہرکی جانب توجہ کم ہی رہی ہے۔ جمیل الدین عالی نے توکھلم کھلا یہاں سے جلد گزرجانے کی ہدایت کی ہے کہ یہ ایک صنعتی شہرہے۔میں عالی صاحب کی طرح صنعتوں کامخالف نہیں، میںنے تو انجینیرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی اور مجھے صنعتوں سے بھی دلچسپی ہے لیکن ان صنعتوں سے جو شاعری میں استعمال ہوتی ہیں مثلا ً لف و نشر مرتب و غیرمرتب ومعکوس الترتیب ،مراعاۃ النظیر وغیرہ ۔
میلان سے کوئی ڈیڑھ پونے دوگھنٹے کی مسافت پر یونی ورسٹی آف ٹیورن (University of Turin)ہے ۔یہ یونی ورسٹی ۱۴۰۴ء میں قائم ہوئی اور یورپ کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ہے ۔میلان سے ٹیورن، ٹیورن سے اردو اردوسے ہماری جدوجہدآزادی کے ایک کردار اقبال شیدائی یاد آئے…تلازمہء خیال بھی عجیب شے ہے۔ میلان سے اقبال شیدائی، اردواور ٹیورن یونی ورسٹی ہی یاد نہیں آئے، ریشمی رومالوں والے مولاناعبیداللہ سندھی کی یادبھی تازہ ہوگئی۔مولانا بھی اٹلی آئے تھے ۔وہ جب استخلاص وطن کے لیے ہندوستان سے نکلے تو افغانستان، روس اورترکی کے بعد اٹلی اور سوئٹزرلینڈ بھی پہنچے تھے ۔انھوںنے اپنے جو حالات بقلم خود لکھ کر روزنامہ انقلاب میں اشاعت کی غرض سے غلام رسول مہرصاحب کو بھیجے تھے۔ میں نے ایک زمانے میں مہرصاحب کے کاغذات میں سے مولاناکے ان دست نوشتہ حالات کی نقل حاصل کی تھی جو اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔مولاناکی تحریر پر ہی مہرصاحب نے کاٹ چھانٹ کرکے اور اپنی جانب سے کچھ تمہیدلکھ کراسے کاتب کے حوالے کردیا تھا۔ان ’’حالات‘‘ میں مولانا نے لکھاہے کہ ۱۳۴۴ھ کے حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں منعقدہونے والی موتمرخلافت میں شرکت کے لیے میرے احباب آرہے تھے ،ان سے ملنے کی خاطر میں نے اٹلی کے راستے مکہ معظمہ پہنچنے کی کوشش کی ۔ مولانانے اقبال شیدائی کو استنبول سے خط لکھا کہ وہ اٹلی آناچاہتے ہیں جس پر اقبال شیدائی کی کوشش سے انھیں اٹلی کا ویزاملا اور وہ ۳؍جون ۱۹۲۶ء کواپنے ذاتی معاون عزیز احمدکے ساتھ میلان پہنچ گئے ۔اٹلی آنے کے بعد ان کے پرانے افغان پاسپورٹ کی جگہ شیدائی نے انھیں اطالوی وزارت داخلہ سے یہ کہہ کر اطالوی پاسپورٹ بنوادیاکہ وہ مکہ معظمہ جاکرہندوستانی حاجیوں کے ذریعے برطانیہ کے خلاف ہندوستان کی تحریک آزادی کو تیزکریں گے ۔
اقبال شیدائی کے نام مولاناعبیداللہ سندھی کے خطوط یادش بخیر پروفیسرمحمداسلم صاحب مرحوم نے مرتب کرکے جرنل آف دی پنجاب یونی ورسٹی ہسٹاریکل سوسائٹی میںشائع کیے تھے (شمارہ جنوری ۱۹۸۰ء ص۱۶)جب یہ رسالہ شائع ہوا تو راقم نے ایک خط لکھ کر پروفیسراسلم صاحب سے ان خطوط کی اصل دیکھنے کی خواہش ظاہرکی تھی جو انھوںنے ازرہ کرم پوری کی اور راقم نے سرگودھا سے لاہورآکر پروفیسر صاحب کے دفتر،شعبہ تاریخ پنجاب یونی ورسٹی، میںان کے پاس یہ خطوط دیکھے ۔ ’’جرنل‘‘ میں شائع شدہ ان خطوط کو ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے سیاسی مکتوبات‘‘ کے نام سے الگ کتابی صورت بھی دی گئی ۔
ان خطوط کی اشاعت سے اقبال شیدائی کی تدریس اردو کا حال معلو م ہوا ۔بعدازاں ایک اور مآخذسے معلوم ہوا کہ وہ ٹیورن میں اردوپڑھاتے تھے مگریہ اہتمام ۱۹۳۳ء میں قائم ہونے والے ایک ادارے (IsMEO) ازمیو( Istituto italiano per il Medio ed Estremo Oriente)میںتھاجس کا مرکز تو روم میں تھا لیکن اس کی ایک شاخ میلان میں بھی تھی۔ آزادی کے بعد شیدائی پاکستان آئے لیکن یہاں اسکندرمرزاان سے بگڑ گئے اور انھیں گرفتارکرواناچاہاجس کے نتیجے میں وہ دوبارہ اٹلی چلے گئے ۔اب انھوں نے ٹیورن یونی ورسٹی میں تدریس اردوکا شعبہ بناکرایک بار پھر اردو پڑھانا شروع کر دی۔ اس باران کی تدریس اردوکاسلسلہ ۱۹۶۵ء تک جاری رہا۔اپنی سیاسی اور انقلابی زندگی میں شیدائی نے اٹلی میں اردوکا ریڈیواسٹیشن بھی قائم کیا تھا۔اس ریڈیواسٹیشن نے ۱۲؍فروروی ۱۹۴۱ء سے اردونشریات کا آغازکیا، جنھیں اٹلی سے باہر کے سیاسی حلقوں میں بہت دلچسپی سے سنا جانے لگا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی شیدائی کے نام ایک خط میں اس ریڈیوکی نشریات کی تعریف کی ہے ۔ اس ریڈیوکانام’’ ہمالہ‘‘ تھا۔ اس نام کے حوالے سے اقبال شیدائی نے لکھاہے کہ ’’بانگ درا‘‘کے پہلے صفحے پر ’’ہمالہ‘‘ کا لفظ دیکھ کر میںنے اپنے ریڈیوکانام ’’ہمالہ‘‘رکھا۔
اقبال شیدائی کے کاغذات میں جو، اب پاکستان کے قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات (نیشنل آرکائیوز اسلام آباد) میں محفوظ ہیں اطالوی اور فرانسیسی زبان کی مراسلت موجود ہے ۔اس میں اطالوی دوستوں کے ساتھ ان کی مراسلتیں بھی ہیں اور اطالوی حکام کے ساتھ بھی ۔اطالوی حکام اور دوستوں کے ساتھ مراسلتوں کا مجموعہ ۱۲۱صفحات پر جبکہ عمومی اطالوی مراسلتیں ۹۱ صفحات پر مشتمل ہیں۔اطالوی حکام اور سفارت کاروں کے ساتھ مراسلتیں بھی کم نہیں ان کا حجم بھی ۱۴۱ صفحات پر مشتمل ہے اوریہ انگریزی زبان میں ہیں۔ انھوںنے ایک زمانے میں مرحوم روزنامہ امروزمیں ’’انقلابی کی سرگزشت‘‘کے عنوان سے اپنی یادداشتیں لکھی تھیں ،ان یادداشتوں میں انھوںنے اٹلی کے زمانہ قیام میں قائداعظم اور علامہ اقبال سے بھی اپنی ملاقاتوں کا ذکرکیاہے ۔ان کے مطابق قائداعظم سے ان کی ملاقات ۱۵؍جولائی ۱۹۲۸ء کو شام چار بجے ہوئی اور علامہ اقبال سے وہ ان کے گول میزکانفرنس کے لیے کیے گئے سفریورپ کے دوران اٹلی میں ملے ۔ اگریہ یادداشتیں مرتب کرکے یکجاشائع کردی جائیں تو ایک تاریخی دستاویزمحفوظ ہوجائے گی۔ایک زمانے میں انھوںنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔شیدائی ۱۳؍جنوری ۱۹۷۴ء کو راہی ملک عدم ہوئے ان کی لوح مزار پر درست لکھاہے کہ ؎
سرشوریدہ بر بالین آسایش رسیداینجا
میلان کے گلی کوچے دیکھتے ہوئے ہم میلان کے ایرپورٹ (Malpensa Airport) پہنچ گئے۔’ سنی‘ اور اس کے دوسرے ساتھیوں سے رخصت ہوکرہم ایرپورٹ کی رنگارنگ دنیامیں داخل ہوئے۔ بین الاقوامی ایرپورٹ، حیرت کدے ہوتے ہیں۔یہاں بھی صفائی اور رنگینی یوں گلے مل رہے تھے کہ’ دیکھاکرے کوئی‘ کی کیفیت تھی …ایک کرسی پر بناہوا دورکنی خشبی مجسمہ دیکھ کر یہ سمجھ نہیں آئی کہ ایرپورٹ پر اس فن کا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟…چونکہ ہمارے پاس کئی گھنٹے تھے اس لیے ہم نے فراق صاحب کی نصیحت ’’بہت وقت ہے آئو باتیں کریں‘‘کی روشنی میںاس وقت کولیپ ٹاپ کے ذریعے پاکستان میں بچوں سے گپ شپ کے لیے استعمال کرنا مناسب سمجھا۔جب خوب باتیں ہوگئیں توپتاچلاکہ جتنی بھی باتیں کرلی جائیں ان سے پیٹ نہیں بھرتا اور یہاں تو صورت حال اس سے مختلف نہیں کہ ؎
مرے دل کی گرہ باتیں بنانے سے نہیں کھلتی
کہ اس میں بستگی کچھ قفل ابجدسے زیادہ ہے
چنانچہ کیفے کا رخ کیاگیا۔ کیفے کیا اچھا خاصا جمعہ بازارتھا البتہ کیفے والوں نے پیار سے اس کانام بازار کے بجائے ’’بار‘‘رکھاہواتھا۔یہ نام دیکھ کر طبیعت پر بارمحسوس ہوا،ظاہرہے یہاں جو کچھ کھانے کو میسر تھا سب کچھ ہمارے لیے نہیں تھا ۔حذیفہ کاخیال تھاکہ بیکری لی جائے ،میرا خیال تھاکہ کوئی پھل لیاجائے لیکن کوئی تازہ پھل دکھائی نہ دیا۔ بالآخر سادہ ڈبل روٹی کی شکل میں اعتدال کی راہ دکھائی دی … حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے ایک عالم بے یقینی میں کیفے والی سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس سادہ دودھ بھی مل سکتاہے تو اس نے کہا’’ بالکل‘‘… آپ گرم دودھ پیناچاہتے ہیں یاٹھنڈا…؟ ارے واہ! اگر یہ پیش کش بھی ہے تواور کیاچاہیے۔دودھ کی نہر کی بجائے دوگلاس دودھ کا آرڈر دیا۔ گرما گرم جھاگ بھرابلکہ بھاگ بھرادودھ ڈبل روٹی کے ساتھ لیا اور لنچ کی تلافی مافات کی گئی…