تہران: ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نطنز جوہری مرکز میں ہونے والے حالیہ حملے اور پابندیوں سے امریکا کو ایران کی ایٹمی ڈیل کو بحال کرنے کے معاملے میں گفتگو سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
تہران میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے یک طرفہ طور پر تمام پابندیاں اٹھانے کی تصدیق کے بعد ایران جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جی سی پی او اے) کے ساتھ مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے واپس آنے کے لیے تیار ہے لیکن امریکیوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ پابندیوں اورتخریب کاری کی حرکتوں سے انہیں گفت و شنید کا موقع نہیں ملے گا اور اس طرح کے اقدامات سے صورت حال ان کے لیے مذید خراب ہو جائے گی۔
ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اس واقعے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے بدلہ لینے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے عالمی پابندیوں کے خاتمے میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اسرائیل نے اس کا بدلہ لینے کے لیے یہ حملہ کروایا ہے۔
ایرانی محکمہ ایٹمی توانائی کے ترجمان بہروز کمالوندی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ واقعے میں جوہری تنصیب کا کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی پلانٹ کو نقصان پہنچا اور انہوں نے یورینیئم کے پھیلنے کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔
ایک روز قبل ہی ایران نے اس جوہری تنصیب میں 164 آئی آر-6 سینٹری فیوجز کا باقاعدہ افتتاح اور نئی یورینیئم افزودگی آئی آر-9 کا عمل شروع کیا تھا۔
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب ویانا میں یورپی یونین کے توسط سے عالمی جوہری معاہدے کے دیگر فریقین کی موجودگی میں امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس میں امریکا کی 2015 کے عالمی معاہدے میں واپسی اور ایران پر سے عائد پابندیوں کے خاتمے پر گفتگو جاری ہے۔ 2018 میں اس معاہدے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔