اسلام آباد: اسلام آباد میں فوری انصاف کی فراہمی سے متعلق کانفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں اور ماضی میں فیصلوں میں تاخیر کم کرنے کے لئے کئی تجربات کیے گئے۔ قانون میں ترمیم تو کبھی ڈو مور کی تجویز دی گئی۔ ہمارے ججز جتنا کام کر رہے ہیں اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا ۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں اور جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کیلیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی عدلیہ کی ذمے داری ہے اور ملزموں کی عدالت میں حاضری یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قیدیوں کو لانے والی پولیس وینز کا باقاعدہ انتظام کیا جانا چاہیے۔ پولیس کو مقدمے کی فوری تحقیقات کر کے چالان پیش کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی عدلیہ کے 3 ہزار ججز نے گزشتہ سال 34 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے اور ججز کو اس سے زیادہ ڈو مور کا نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقدمے کے فیصلوں کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی سپریم کورٹ سال میں 100 مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مقدما ت کا التوا ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں اور جوڈیشل پالیسی کے تحت مقدموں کے لیے وقت مقرر کیا جائے گا۔ اس سے انصاف کا حصول آسان ہو گا اور ماڈل کورٹس ایک مشن کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ ماڈل کورٹس کا تجربہ آئین کے آرٹیکل 37 ڈی پر عمل درآمد کرنا ہے اور ان کا مقصد مقدمات کے التوا کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ مقدمے میں کسی وجہ سے استغاثہ کے پیش نہ ہونے پر متبادل انتظام کیا جائے گا۔