اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر گمشدگی کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر گمشدگی کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل شیر افضل مروت نے وزارت قانون کے نوٹیفیکیشن کو عدالت کے سامنے پڑھا۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے وزارتِ قانون کے نوٹیفکیشن کی وضاحت طلب کی تھی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کر دیا۔
وکیل شیر افضل مروت نے دلائل میں کہا کہ وزارت قانون نے کس اختیار اور قانون کے تحت عدالت اٹک جیل منتقل کی، اسلام آباد سے ٹرائل پنجاب میں کیسےمنتقل ہو سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ چیف کمشنر یا سیکریٹری داخلہ کا اختیار نہیں کہ وہ ٹرائل دوسرے صوبے منتقل کریں، ٹرائل کی دوسرے صوبے منتقلی قانونی طور صرف سپریم کورٹ کر سکتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دگل نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کیس میں عدالت کی مقام کی تبدیلی صرف ایک بار کے لیے تھی، 30 اگست کو سائفر کیس کی سماعت کے لیے عدالت اٹک جیل منتقل کی گئی تھی، یہ نوٹیفکیشن وزارتِ قانون نے جاری کیا اور اسی کا ہی اختیار تھا، وزارتِ قانون نے این او سی جاری کیا کہ وینیو تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ جیل ٹرائل کوئی ایسی چیز نہیں جو نہ ہوتی ہو، جیل ٹرائل کا طریقہ کار کیا ہو گا اس کے متعلق بتائیں۔ پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ سائفر کیس کا ابھی ٹرائل نہیں ہو رہا، وزارتِ قانون نے قانون کے مطابق صرف عدالت کی منتقلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس سے پہلے 2 ججز اسی بنیاد پر تعینات ہوتے رہے ہیں، ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی اور جج راجہ جواد عباس کی تعیناتی بھی اسی طرح ہی ہوئی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن جب ایک دفعہ کے لیے تھا تو ان کی پٹیشن غیر موثر ہو چکی ہے۔
عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے اعتراض کیا کہ اٹارنی جنرل نے کہاکہ نوٹیفکیشن غیر مؤثر ہو گیا، یہ نہیں کہہ سکتے، غیر مؤثر کی حد تک یہ ہے کہ اگر کل دوبارہ آپ کر دیں پھر کیا ہو گا؟ یہ طے تو ہونا ہے کہ نوٹیفکیشن کس اختیار کے تحت کر سکتے ہیں؟ عدالت نے دیکھنا ہے کہ ملزم پر تشدد تو نہیں کیا جا رہا، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ریمانڈ میں ملزم عدالتی تحویل میں ہوتا ہے۔ عدالت نے طے کرنا ہے کہ وزارتِ قانون کا نوٹیفیکیشن درست تھا یا نہیں۔
شیر افضل مروت نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے پیچھے بدنیتی ہے کیونکہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے نوٹیفیکیشن کا مقصد پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کو اٹک جیل میں رکھنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا گیا، آفیشل سیکرٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل اسپیشل کورٹ میں ہوتا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ اگر ٹرائل تبدیلی کرنی تھی تو ان کو ٹرائل جج سے پوچھنا تھا لیکن نہیں پوچھا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اٹک جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں جبکہ انکی توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہو چکی ہے لیکن عمران خان اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر اٹک جیل میں ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ کسی کے پاس جواب ہے کہ سزا معطل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کیوں قید ہیں، ٹرائل کورٹ کے جج این او سی پر اٹک جیل کیوں چلے گئے؟ فاضل جج نے اپنا دماغ استعمال ہی نہیں کیا اور چلے گئے، کل لانڈھی جیل کا این او سی آ جائے تو جج صاحب لانڈھی چلے جائیں گے؟
اس موقع پر چیئر مین پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ہماری ایک اور درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے، ہماری استدعا ہے کہ محفوظ فیصلہ سنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ہم مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ میں اُس پر بھی آرڈر پاس کروں گا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے وزارتِ قانون کے نوٹیفکیشن کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔