اسلام آباد: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے صحافی سے کہا کہ چور نواز شریف اور دہشتگرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کریں ۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی انسداد دہشت گردی عدالت آمد پر صحافیوں نے عمران خان سے مختلف سوالات کیے جن کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں بڑا خطرناک ہوں ۔
صحافی نے سوال کیا کہ پہلے بانی متحدہ پھر نواز شریف اور اب آپ کو مائنس کیا جارہا ہے ؟ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے صحافی کو جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک چور نواز شریف اور دہشتگرد بانی متحدہ سے میرا موازنہ نہ کریں ۔
واضح رہے کہ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکیوں سے متعلق کیس میں عمران خان انسداد دہشت گردی عدالت پیش ہوئے تو عدالت نے اُن کی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی ۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے خاتون جج زیبا چوہدری کو دھماکے سے متعلق کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کی جس دوران عمران خان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کے روبرو دلائل پیش کئے ۔
بابر اعوان نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس آنے کی اجازت دی جائے جس پر جج نے کہا کہ یہ بات آپ پہلے بتاتے تو ہم پہلے ہی اجازت دیدیتے ۔
جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے؟ جس پر بابر اعوان نے بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش ہو گئے ہیں، تفتیشی افسر نے خود بتایا تھا کہ بذریعہ وکیل شامل تفتیش ہوئے ۔
عمران خان کے وکیل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمہ اخراج کی درخواست پر نوٹس ہو چکا ہے، پولیس نے ہائیکورٹ کو غلط بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہیں ہوئے، عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر شفاف انویسٹی گیشن کر کے پیش رفت سے آگاہ کرے ۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 3 نوٹسز بھجوائے لیکن عمران خان ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں، اس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے ریمارکس دئیے کہ آپ تک بیان پہنچا جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا، اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کو اس معاملے پر جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے عدالت کی رہنمائی کرنے کی ہدایت کی، ایف آئی آر کے اندراج کو کتنے دن ہوئے اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟ یہ جس کرائم کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ ہے ہی تقریر کا معاملہ، آپ کو اس کیلئے ذاتی حیثیت میں ملزم کیوں چاہیے؟
معاون پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ملزم سے سوال جواب کرنے ہیں، اگر تفتیشی افسر نے بلایا ہے تو ملزم کو پیش ہونا ضروری ہے جس پر جج نے بابر اعوان سے پوچھا کہ کیا آپ کو جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرانے میں کوئی مشکل ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ لیاقت علی خان سمیت بہت سے لیڈرز مارے جا چکے ہیں، عمران خان کو بھی سیکیورٹی خدشات ہیں۔