تبادلوں،تقرریوں کا کھیل

 تبادلوں،تقرریوں کا کھیل

 بارشوں سے آنے والی تباہی بھی ہماری سیاسی محاذآرائی کو ٹھنڈا نہیں کر سکی، ایک طرف ملک کی بڑی جماعتوں کے اتحاد سے ملک چل نہیں رہا تو دوسری طرف سب سے بڑی مقبول جماعت کے لیڈر عمران خان کو مائنس کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں،پنجاب میں ایک مستحکم حکومت کو بھی غیر مستحکم کر نے کا سوچا جا رہا ہے،ملکی اداروں کے متعلق چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں مگر بات چیت کا راستہ کسی کو یاد نہیں آ رہا جو ایک جمہوری اور مثبت راستہ ہے۔ دوسری طرف ہر ناکامی کا ملبہ بیوروکریسی پرڈالنا بھی ایک فیشن بن چکا ہے، کوئی حکومت اپنے دور میں اپنے ہی منشور پر عمل نہ کر سکے تو ذمہ دار بیوروکریسی کو قرار دیا جاتا ہے،اب پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی مشترکہ حکومت کی وجہ سے ارکان اسمبلی کی ہر بات ماننا پڑ رہی ہے اور ان کی خواہشات پر ہو رہے ہیں تبادلے،تبادلے اور تبادلے۔
بزدار دور میں حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے انتظامی سطح پر افسروں کی تقرریاں اور تبادلے ثواب سمجھ کر کئے گئے،چیف سیکرٹری اورآئی جی سطح کے افسر بھی ایسے تبدیل کئے گئے جیسے سیاسی رہنما دن رات اپنا موقف اور حکمت عملی تبدیل کرتے ہیں،پنجاب حکومت کی کارکردگی پر اپوزیشن کی طرف سے تنقید ہوتی تو ہر مرتبہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے وضاحت آتی ہے کہ بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی جس کے باعث پنجاب میں پرفارم نہیں کر پا رہے،حالانکہ ایسے اپ رائٹ،محنتی،قابل،دیانتدار افسروں کی کمی نہ تھی جو کارکردگی میں بھی اپنی مثلاً آپ تھے،مگر کسی کو اعتماد دیا گیا نہ توقیر،اختیار دیا گیا نہ ٹاسک، مہلت دی گئی نہ موقع،بوتل کے جن کی طرح کام لینے کی کوشش کی گئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے،اس دور میں بیوروکریسی دو دھاری تلوار پر چلتی رہی،عثمان بزدار چونکہ معمولی اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے اس لئے ان کو اپنے ارکان کو راضی رکھنے کیلئے ان کی ہر جائز ناجائز بات ماننا پڑتی تھی،جو افسر قواعد کے تحت کسی فائل کو روکتا اس پر ن لیگ کا وفادار ہونے کا الزام لگ جاتا،نتیجہ تبادلہ۔
 گزشتہ دور میں بیوروکریسی کے سر پر ہر وقت نیب کی تلوار لٹکتی رہی،افسر پریشان کہ ناتجربہ کار اور ضوابط سے نا بلد ارکان کی بات مانیں یا اپنی گردن نیب کے شکنجے میں کسنے کیلئے پیش کر دیں،تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی میں ایسے افسر ہیں جو ہماری حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور حکومت کے لیے مسائل کھڑے کرتے ہیں،بیوروکریسی کے ایسے تمام افسروں کو سیدھا کرکے اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت چلتی بنی،بیوروکریسی پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا کہ مخصوص افسروں نے ”گو سلو“ یعنی فائیلز کوآگے بروقت نا بھیجنا یا حکومتی پالیسوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی پالیسی کے تحت کام کیا جس نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا،بزدار دور میں ہر کام کمزور سوچ کے ساتھ کام شروع کیا گیا کہ کہیں ارکان ناراض نہ ہو جائیں اسی سوچ کے نتیجے میں ان کی حکومت چل سکی نہ وہ کوئی با اعتماد بیوروکریٹک ٹیم بنا سکے۔
 پنجاب میں اس وقت تحریک انصاف اور ق لیگ کی مخلوط حکومت ہے،چہرے بدل گئے مگر زمینی حقائق وہی ہیں اور اطوار بھی،عثمان بزدار ق لیگ کی بیساکھیوں پر کھڑے تھے تو اب پرویز الٰہی تحریک انصاف کی بیساکھیوں کا سہارا لئے ہوئے ہیں،اکثریتی اتحادی پارٹی کے ارکان کی فرمائشیں،خواہشات پوری کرتے آ خر کار وہ بھی تبادلوں تقرریوں کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں،پچھلے ایک سال کے عرصہ میں لوکل گورنمنٹ کے سسٹمآٹھ سے نو مرتبہ تبدیل کئے گئے،کسی کے حصے کبھی کچھ کام آتا تو وہ ایک دو مہینوں بعد کسی اور کی ذمہ داری ٹھہرتااور کسی افسر کی تبادلہ کے بعد نئی پوسٹ پر تعیناتی کا عرصہ اوسطاً چار ماہ ہوتا تھا،افسر ذہنی طور پر یکسو تھے نہ پر اعتماد،شام کو گھر جاتے تو اگلے دن واپسی پر تبادلہ ہو گیا ہوتا،جس کے نتیجے میں سرکاری امور ٹھپ تھے،کوئی رکن اسمبلی جب چاہتا کسی بھی افسر کا کھڑے کھڑے تبادلہ کرا دیتا تھا،اس حوالے سے نئی پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی اور ق لیگ پر مشتمل کمیٹیاں بھی تشکیل دے رکھی ہیں مگر بے سود،ماضی میں کسی بھی افسر کی کسی محکمہ میں تعیناتی کے بعد اسے ایک معقول عرصہ کام کرنے کیلئے دیا جاتا تھا،ایک ٹینیور سسٹم میں رہتے ہوئے پالیسی لائن دی جاتی، اعتماد، توقیر اور ٹاسک دے کر نتائج کیلئے مہلت دی جاتی، تب بیورو کریٹ اعتماد کیساتھ بغیر کسی مداخلت کے اپنے فرائض ادا کرتے اور نتائج دیتے بھی تھے،وہ ”رزلٹ اورئینٹڈ“دور تھا۔
 اچھی انتظامیہ چلانے کے لیے میرٹ کا ہونا بہت ضروری ہے جبکہ وزیر اعلیٰ اگر اپنی سیٹ مستحکم رکھنے کے لیے ہر ایم پی اے کی سفارشات ماننا شروع کر دے تو ہر ادارے اور افسر کی کارکردگی پر حرف آئے گا بلکہ کوئی کارکردگی دکھا ہی نہ سکے گا، مسائل کا حل نکالنے کیلئے جب بھی بیٹھک ہوتی ہمیشہ حکومت کہتی ہے ہم میں کوئی کمی یا خرابی نہیں ہے بیوروکریسی کام نہیں کر رہی اس لئے ان کو بدل دیتے ہیں،یہ مسئلے کا دور رس حل ہے نہ کبھی اس حل سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، جتنے بھی افسر ابھی تک تبدیل ہوئے ان سب کا شمار قابل افسروں میں ہوتا مگر ہر دو تین ماہ بعد کسی نہ کسی بات پر حکومت اور ان کے درمیان تنازع کھڑا ہو جاتا اور جو افسر اپنی بات پر ڈٹ جاتا اس افسر کو بدل دیا جاتا،ہر حکومت نے اپنی بد عملی اور نا اہلی کا ملبہ بیوروکریسی پر ڈال کر سرخرو ہونے کی کوشش کی،بیوروکریٹس کی سیاسی وابستگیوں کے حوالے تاثر بھی انتہائی غلط ہے، بیوروکریسی کے لوگ سرکاری ملازم ہوتے ہیں اور وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ قربت نہیں رکھ سکتے سرکاری ملازم اپنے محکمے میں ہمیشہ ترقی چاہتا ہے۔
 شہباز شریف کے پہلے دور سے تقرری اور تبادلہ کا اکثر کام وزیر اعلیٰ آفس کرتا اور افسر اس کام کے لئے سیاستدانوں کی طرف دیکھتے، اس سیاسی مداخلت اور مسلسل تبدیلی کے باعث صرف نقصان ہو ا، انتظامی معاملات کو صرف اس صورت میں بہتر کیا جا سکتا ہے کہ افسروں کی تقرری میرٹ پر ہو، حکومت کی جانب سے سفارشات ختم کی جائیں، اگر کسی افسر کے بارے میں کوئی سنگین شکایت ہے تو لازمی اس کے خلاف ایکشن لیں،لیکن اگر حکومتی ذمہ داران یہی فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کس افسر کوکہاں تعینات کرنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ فیصلہ سازوں کے ساتھ ہے۔
چودھری پرویز الٰہی ایک آزمودہ،تجربہ کار، بیورو کریسی اور سیاستدانوں سے یکساں اچھے تعلقات رکھنے والی شخصیت ہیں،بیوروکریسی بھی ان پر اعتماد کرتی ہے،انکی ٹاپ لیول کی بیوروکریٹک ٹیم بھی مثالی ہے، انہیں حکومتی پالیسیوں کے مطابق انتظامی امور سنبھالنے والوں کی بھی نگہداشت کرنا ہو گی،اب تبادلوں تقرریوں کا کھیل بند یا کم کر دیں، جن کو لگا یا گیا ہے ان کو اعتماد اور اختیار دے کر رزلٹ لیں اورآپکی سابقہ حکومت کی کامیابی کا یہی راز تھا۔

مصنف کے بارے میں