کپتان چاروں طرف سے گِھر گئے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجز بینچ نے خاتون جج کیخلاف جلسہ عام میں ان کی جانب سے دیے گئے ریمارکس اور ایکشن لینے کی دھمکی پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی گزشتہ سماعت میں انہوں نے جو جواب جمع کرایا تھا عدالت عالیہ نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 8 ستمبر کو دوبارہ سوچ سمجھ کر جواب دینے کے لیے غیر معمولی ریلیف دیا تھا۔ توقعات اور عمومی تجزیوں کے عین مطابق انہوں نے اپنے دوسرے جواب میں بھی غیر مشروط معافی کے بجائے توجیہات پیش کیں جنہیں عدالت نے قبول نہیں کیا۔ ان کے وکیل حامد خان نے عدالت کو مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، چیف جسٹس نے فیصلہ سے قبل ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین عدالت حساس معاملہ ہے عدالت اسے نظر انداز نہیں کر سکتی۔ معمولی نوعیت کا توہین عدالت کیس الگ بات ہے لیکن خاتون جج کو دھمکی دینا اور ان کی سلامتی خطرے میں ڈالنا کریمنل توہین عدالت کیس ہے۔ اس موقع پر عمران خان نے روسٹرم پر آ کر کچھ کہنے کی استدعا کی لیکن فاضل چیف جسٹس نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ آپ کے وکلا کے تمام دلائل سن چکے ہیں جس کے چند منٹ بعد انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ دے دیا۔ فیصلے سے قبل بینچ کے ارکان جب چیف جسٹس کے چیمبر میں مشاورت کے لیے گئے تو عمران خان نے صحافیوں سے کہا کہ مجھے جیل بھیجا گیا تو مزید خطرناک ہو جاؤں گا۔ سیانوں نے کہا اب اور کتنے خطرناک ہوں گے کارنرڈ ٹائیگر تو بن چکے۔ شیر بن نہیں سکتے۔ بڈھا شیر لندن میں بیٹھا غرا رہا ہے۔ واپس آ گیا تو مزید خطرہ بن جائے گا۔ کپتان جیل چلے گئے یا نا اہل قرار پائے تو کیا گولیاں چلائیں گے یا گریبانوں پر ہاتھ ڈال کر دل کی بھڑاس نکالیں گے۔ معاملات گمبھیر ہیں۔ مقدمہ کی نوعیت مختلف اور خاصی خطرناک ہے ان کے حامی سوشل میڈیا پر قوم یوتھ کو بتا رہے ہیں کہ کسی نا معلوم کال نے حالات خراب کیے اور نوبت فرد جرم تک آ پہنچی۔ فضول بات، دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ اتنی توجیہات کی کیا ضرورت تھی طلال چودھری، دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور دیگر لیڈروں نے غیر مشروط معافی مانگی تھی۔ اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا۔ نہال ہاشمی کو تو ایک ماہ قید اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔ کپتان خوش قسمت عدالت نے انہیں دوبار جواب داخل کرانے کی مہلت دی مگر شومئی قسمت وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ان حالات میں عدالت کیا کرے فیصلہ تو کرنا ہو گا۔ فیصلہ تو آئے گا۔ چھوڑ دیے جائیں تو نا اہل ہونے والوں کی لائن لگی ہے انہیں بھی ریلیف دینا ہو گا۔ اسی لیے فاضل چیف جسٹس نے واضح کر دیا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے باہر نہیں جا سکتے۔ فیصلہ ہونے کو ہے، بقول شاعر۔ ”الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں، لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا“۔ سو باتوں کی ایک بات، کپتان کو انا، ضد، تکبر اور مقبولیت کا غرور لے ڈوبا ہے۔ ایک سینئر تجزیہ کار نے پتے کی بات کہی کہ عمران خان کے راستے میں ان کے سیاسی حریفوں نے جو کانٹے بچھائے ہیں ابھی وہ ان تک تو پہنچے ہی نہیں۔ اپنے بچھائے ہوئے کانٹوں میں الجھے ہوئے ہیں چند روز قبل اسی عدالت عالیہ کی انہوں نے تعریف کی تھی اب ان کے حامی باتیں بنا رہے ہیں۔ معاملات سوچے سمجھے بغیر باتیں منہ سے نکالنے پر خراب ہوئے ہیں۔ ایک کیس ہو تو شاید نامہ اعمال بائیں ہاتھ کے بجائے دائیں ہاتھ میں آ جاتا یہاں تو 21 کیسز پیش ہونے کو مچل رہے ہیں۔ سانپ سیڑھی کا کھیل جاری جلسوں سے مقبولیت کا غرور، عدالتوں میں پیشیوں سے مایوسی، گھبراہٹ اور غراہٹ بڑھ رہی ہے۔ اسی مایوسی اور گھبراہٹ میں ایسی باتیں منہ سے نکل رہی ہیں جن کے باعث دو اور مقدمات قائم کیے جانے پر غور ہو رہا ہے۔ ان میں ایک شوکت ترین کی ویڈیو اور دوسرا آئی ایس پی آر کے غم و غصہ کی بنیاد
پر قائم کیا جائے گا۔ جنرلز کیخلاف ہرزہ سرائی کیوں کر برداشت ہو گی۔ سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہنے پر کوئی قدغن نہیں لگی تو حوصلہ بڑھ گیا، اب فوج اور عدلیہ پر عام جلسوں میں توہین آمیز کلمات منہ سے انگاروں کی صورت نکلنے لگے۔ کون برداشت کرے گا کسی منہ پھٹ نے کسی راہگیر کو گالیاں دیں، شریف آدمی کان لپیٹ کر چلا گیا۔ گالیاں دینے والے کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے ایک اور شخص کو روک کر بُرا بھلا کہا اس نے پستول نکالی اور فائر کر دیا۔ قصہ تمام ہوا۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی نے کہا کہ کارنرڈ ٹائیگر بدقسمتی سے (Bull in the china shop) بنتے جا رہے ہیں جس کے بعد ان پر چاروں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی ہے۔ کہاں تک بچیں گے کہاں تک بچائیں اصول کی بات کیوں نہیں کرتے کہ ادارے غیر جانبدار اور آئین کے دائرے میں رہیں آئین کی کون سی شق یا آرٹیکل میں لکھا ہے کہ آرمی چیف عمران خان کو دوبارہ اقتدار دلا دیں۔ کیونکہ بقول ان کے جو مجھے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے گا وہی محب وطن ہو گا۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ سابق وزیر اعظم سیاستدانوں کے بعد فوج میں بھی حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی مذموم اور ملک دشمن مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ فوج کا مورال ڈاؤن کرنا چاہتے ہیں۔ ملک دشمنوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں چیف جسٹس نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ گیم آف تھرونز کے لیے وہ ہر چیز کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ایک دوست کا کہنا بجا ہے کہ عمران خان عدالتوں کا امتحان نہ لیں۔ انہیں آزمائش میں نہ ڈالیں۔ قانون نے اپنا راستہ بنا لیا تو پریشانی ہو گی۔ کسی نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں صفائی ستھرائی جاری ہے۔ سپیشل وارڈ بنایا جا رہا ہے۔ صفائی ستھرائی کون سی نئی بات ہے یار لوگ بھی بات سے بات نکالتے ہیں۔ شہباز گل جیل میں ہیں صفائی ستھرائی تو ہوتی ہو گی گند پڑے گا تو صفائی ہو گی پی ٹی آئی کے سرکردہ لیڈر فیصل جاوید کے بقول تبدیلی نہیں انقلاب آ رہا ہے۔ حالانکہ انقلاب آ گیا ہے کتنی تبدیلیوں کے بعد پہلی بار اداروں کو احساس ہونے لگا ہے کہ ”گھروں کی راکھ پھر دیکھیں گے پہلے دیکھنا یہ ہے گھروں کو پھونک دینے کا اشارہ کون کرتا ہے“۔ فرد جرم کی تاریخ پر فرسٹریشن کے ساتھ ساتھ غصہ بھی بڑھ رہا ہے۔ کپتان نے اپنی زیر صدارت ایک اجلاس میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی شاید انہیں پتا چل گیا ہے کہ اسلام آباد میں کھچڑی پک رہی ہے۔ یہاں سے کچھ دور افق پر مائنس ون فارمولے پر باتیں ہو رہی ہیں۔ مائنس فار آل کی گیڈر بھبھکی دینے والے شیخ رشید منظر سے غائب ہیں۔ وہ ایسے موقع پر اِدھر اُدھر ہو ہی جایا کرتے ہیں ایٹمی دھماکوں کے موقع پر خوفزدہ ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ رانا ثنا اللہ نے عمرے سے واپسی پر کہہ دیا کہ خطرناک ہونے کی باتیں صرف باتیں ہیں جیل بھیج دیے گئے تو لگ پتا جائے گا۔ عمران خان کی فرسٹریشن اور مایوسی کی بنیادی وجہ یا وجوہ یہ ہیں کہ تحریک عدم اعتماد منظور ہونے اور اقتدار سے محرومی کے بعد اب تک ان کی کوئی خواہش حسب منشا پوری نہیں ہوئی عدالتوں کی طرف سے عارضی ریلیف سے وہ خطرناک راستے پر چل نکلے ہیں۔ جلسے جلوس کسی کی جان بچانے یا اقتدار دلانے میں معاون ثابت نہیں ہوتے دیر ہو جائے تو ہمالیہ رونے لگتا ہے۔ خواہشات پوری نہ ہونے پر مایوسی کے عالم میں ایکس وائی زی کی رٹ لگانے کی وجہ سے مزید غلطیوں سے وہ اسٹیبلشمنٹ اور اداروں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ جس طوفان میں پھنس رہے ہیں۔ کوئی ادارہ چھتری فراہم کرنے کو تیار نہیں کریمنل توہین عدالت اور مائنس ون فارمولے کی بازگشت کے ساتھ ہی پنجاب بھی ان سے دور جا رہا ہے۔ وہ جنہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں پرویز الٰہی ان کی تعریفوں پر مبنی بیانات دے کر کپتان سے اپنے فاصلے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں بھی حالات اچھے نہیں دو ارکان کے مستعفیٰ ہونے کے بعد خبریں گشت کر رہی ہیں کہ ق لیگ کے 6 ارکان اور اتحادیوں پلس پی ٹی آئی کے 20 ارکان نکل بھاگنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ حمزہ شہباز نے بھی سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن داخل کر دی ہے۔ فیصلہ ہوا تو پنجاب بھی ہاتھ سے جائے گا۔ سیاسی معاملات پر محتاط رد عمل دینے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے فی البدیہہ بیانات سے انہیں یا ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ عام انتخابات بھی ان کی مرضی کے مطابق فوری نہیں ہوں گے۔ نومبر میں ہونے والی تبدیلی بھی آئین کے مطابق وزیر اعظم کی صوابدید پر ہو گی کوئی شور و غوغا کام نہیں آئے گا۔ میرے والا ٹھیک تمہارے والا غلط کا پنڈورا بکس کھولنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ فیصل چودھری کی دھمکی کہ پچاس لاکھ بندے کھڑے ہو گئے کہ ملک چلنے نہیں دینا تو پھر کیا ہو گا؟ پچاس لاکھ بندے کہاں سے لائیں گے جب آئیں گے تو دیکھا جائے گا انہوں نے اپنے کپتان کو تجویز دی تھی کہ ہماری لفاظی بہتر ہو سکتی ہے تاہم سامنے پندرہ بیس ہزار بندے دیکھ کر بہتر الفاظ کسے یاد رہتے ہیں۔ حرف آخر عمران خان کیلئے مشکل وقت شروع ہو گیا ہے۔ ان کے بیانات سے پارٹی کے اندر بھی بہت سے لوگوں کے پر جلنے لگے ہیں۔ کمال ہے شاہ محمود قریشی اپنے لیڈر کے بیانات نہیں سنتے شاید آنے والے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ کیوں نہ ہوں ایک دن میں 5 بُری خبریں آئیں گی تو جنوبی پنجاب کے لیڈر کے کان فیصلوں پر لگ جائیں گے ان خبروں میں فارن فنڈنگ کیس، توہین عدالت کیس میں فرد جرم، استعفوں کے بارے میں درخواست مسترد، دہشت گردی تحقیقات میں کپتان کو شامل ہونے اور پولیس کو بنی گالہ میں رسائی کا حکم شامل ہیں۔ ستارے گردش میں ہیں۔ ستاروں کا حال بتانے والے ایک منجم اجمل رحیم نے کہا ہے کہ عمران خان آئندہ دنوں کے دوران سخت دباؤ میں رہیں گے۔ نا اہلی یا دیگر سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ 20 ستمبر کو Sun ان کے ستارے لبرا پر غالب آ جائے گا نا اہلی کے 75 فیصد امکانات ہیں شو چلے گا عوام تماشا دیکھیں گے۔ 20 اکتوبر کے بعد سسٹم بدلے گا کوئی نئی تبدیلی آ سکتی ہے کرنسی کی صورتحال بہتر ہو گی معیشت کی بہتری کے بھی امکانات روشن ہیں، واللہ اعلم بالصواب، ستاروں اور سیاروں کا علم تو خالق کائنات کو ہے۔