محترمہ بیگم کلثوم نواز 1950 میں لاہور کے کشمیری گھرانے میں ڈاکٹر حفیظ بٹ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب حافظ قرآن اور دین دار شخصیت تھے۔ کلثوم نواز کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی اور بچپن ہی سے اسلامی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ البنات سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے میٹرک لیڈی گریفن سکول سے کیا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج سے پری میڈیکل جبکہ ایف سی کالج سے بی ایس سی اور پنجاب یونیورسٹی سے اُردو ادب میں ماسٹر کیا۔ بیگم کلثوم کی 2 اپریل 1971 کو محمد نواز شریف کے ساتھ شادی ہوئی۔ شادی کا یہ بندھن دونوں کے لیے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ اس بندھن میں بندھتے ہی محمد نواز شریف پر کامیابی اور ترقیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ محمد نواز شریف اور کلثوم نواز کے دو بیٹے حسین، حسن اور دو بیٹیاں مریم اور اسما ہیں۔ 1981 میں پہلی مرتبہ جب محمد نواز شریف وزیر خزانہ بنے تو تقریر بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے لکھی تھی اس کے بعد بھی تقریریں بیگم صاحبہ لکھتی تھیں اور اس کے بعد میاں صاحب کو ریہرسل بھی کراتی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز کو تین مرتبہ خاتون اول بننے کا اعراز حاصل ہے۔ محمد نواز شریف سے شادی کے بعد اور تین بار خاتون اول رہنے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ شفقت، محبت، شرافت، قناعت، سخاوت، تحمل اور برداشت مرحومہ کی زندگی کے قیمتی اثاثے تھے۔ حاجت مندوں کی مالی معاونت کرتی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز کے سیاست میں آنے کا فیصلہ ان کے سسر میاں محمد شریف کا تھا اور ان کا یہ فیصلہ درست اور دوراندیش ثابت ہوا۔ کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
12 اکتوبر 1999 کو جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے منتخب حکومت پر شب خون مارا اور اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو خاندان سمیت نا صرف نظر بند کیا گیا بلکہ ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کر کے انہیں سزائیں بھی دلوائیں۔ یہ وہ دور تھا جب ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے نیب کے ذریعے مسلم لیگ سے ہم خیال لیگ بنائی جس کے بعد مسلم لیگ کے اہم لیڈر اپنے قائد محمد نوازشریف کا ساتھ چھوڑ کر ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے اور ہم خیال لیگ میں شامل ہو گئے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا خیال تھا کہ محمد نواز شریف کی سیاست کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن یہ اُس وقت اُن کی خام خیالی ثابت ہوئی جب بہادر خاتون بیگم کلثوم نواز کو جون 2000 میں مسلم لیگ (ن) کا قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔ محمد نواز شریف کے وفادار ساتھیوں نے کلثوم نواز کا بھر پور ساتھ دیا اور ہر قسم کی مشکلات برداشت کر کے جیلیں بھی کاٹیں لیکن اپنے قائد محمد نوازشریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا۔ جب ڈکٹیٹر کی ایما پر محمد نواز شریف کو سزائیں دلائی گئیں تو ان انتقامی کارروائیوں کے خلاف کلثوم نواز نے لاہور سے تحفظ پاکستان ریلی نکالی۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس نے اُنکی گاڑی کو کرین کے ذریعے اُٹھایا اور انہیں ریلی کی اجازت نہیں دی۔ بیگم صاحبہ کئی گھنٹے تک شدید دھوپ میں گاڑی میں محصور رہیں لیکن آمریت کے خلاف گھٹنے نہیں ٹیکے اور پورے ملک میں بیگم صاحبہ کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ لاہور کے چودھری برادران نے انکا ساتھ دینے سے انکار کیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئے۔ اس دوران خود کو فرزند پاکستان کہنے والے شیخ رشید نے بھی محترمہ کو اپنے گھر لال حویلی میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے سے معذرت کی۔ ایسے حالات میں جب راولپنڈی میں ان کا پروگرام کرانے کو کوئی تیار نہیں تھا تو پنڈی کے مرد مجاہد چودھری تنویر نے بیگم صاحبہ کو اپنا گھر پیش کر دیا اور آمر کے خلاف جلسہ کیا جس کی پاداش میں انہیں نیب کے ذریعے گرفتار کیا گیا اور دو سال تک قید وبند کی سزا کاٹی۔ گوجر خان میں چوہدری محمد ریاض نے بیگم صاحبہ کا تاریخی استقبال کیا اور ان کی رہائش گاہ پر جلسے سے خطاب کیا چوہدری تنویر اور چوہدری محمد ریاض کے کامیاب جلسوں کے بعد بیگم صاحبہ کا حوصلہ بڑھ گیا۔ بیگم صاحبہ کیساتھ سخت وقت میں مخدوم جاوید ہاشمی اور بیگم تہمینہ دولتانہ نے بھر پور ساتھ دیا۔ جب دسمبر میں کلثوم نواز اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پشاور گئیں تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر پیر صابر شاہ نے بیگم صاحبہ کا فقید المثال استقبال کیا۔ کلثوم نواز صاحبہ نے خود اپنی کتاب ”جبر و جمہوریت“ میں صفحہ نمبر 33 میں تحریر کیا ہے 7 دسمبر کو پشاور گئی صابر شاہ اور سرانجام خان کی طرف جانا ہوا۔ ان دونوں کے ثابت قدم رہنے کے عزم نے مجھے بڑا حوصلہ دیا جب مسلم لیگ سرحد کے اجلاس میں صابر شاہ نے میرے سر پر دوپٹہ رکھنے کی پختون رسم ادا کی تو اس وقت انہوں نے کہا کہ ہم نے سر پر دوپٹہ رکھ کر مرنے کی قسم کھائی ہے۔ ان تمام افراد کا جذبہ اور عمل میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔ راقم الحروف کی بھی اس وقت بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوئی تھی، وہ نہایت عاجز، شریف اور ملنسار خاتون تھیں بیگم صاحبہ نے پورے ملک میں مشرف آمر یت کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کے لئے لاہور سے چاغی کا سفر کیا۔ چاغی کا راستہ ویران اور دشوار گزار بھی تھا، سخت گرمی کا موسم تھا، چاغی کے صحرائی اور پہاڑی علاقے میں آگ برس رہی تھی لیکن اس کے باوجود لوگوں نے ہر جگہ پر بیگم صاحبہ کا استقبال کیا اور حکومتی رکاوٹوں کے باوجود بھی لوگ بیگم صاحبہ کے استقبال کیلئے چاغی پہنچے تھے۔
جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو نااہل کر دیا اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست NA-120 سے بھی محروم کر دیا گیا تواس کے بعد بیگم کلثوم صاحبہ کو NA-120 سے الیکشن لڑنے کیلئے سیاست کے میدان میں اتار دیا گیا اور ان کی بیٹی مریم نواز نے انکی انتخابی مہم چلائی جس کے نتیجہ میں بیگم صاحبہ الیکشن جیت گئیں۔ بیگم صاحبہ علیل ہو نے کی وجہ سے لندن میں زیر علاج تھیں۔ وہ لندن کے ہارلے سٹریٹ کے کلینک میں کینسر کے خلاف طویل جنگ لڑ رہی تھیں۔ محمد نواز شریف اور فرمانبردار بیٹی مریم نواز اور بیٹے حسین نواز اور حسن نواز بھی ہسپتال میں بیگم صاحبہ کی تیمارداری میں مصروف تھے لیکن جب احتساب عدالت نے محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف سزا کا فیصلہ سنایا تو محمد نواز شریف اور مریم نواز بیگم صاحبہ کو سخت بیماری کی حالت میں وینٹی لیٹر پر لندن میں چھوڑ کر وطن واپس آئے اور جیل گئے۔ جوانمردی اور بہادری کے ساتھ جیل کی صغوبتیں برداشت کرتے رہے۔ محمد نواز شریف کو زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ پہنچا کہ انہیں اپنی بیمار بیگم کے ساتھ زندگی کا آخری عشرہ گزارنے کا موقع نہیں ملا۔ 11 ستمبر 2018 کو لند ن میں بیگم کلثوم نواز خالق حقیقی سے جا ملیں۔ مرحومہ کو جاتی عمرہ رائے ونڈ لاہور میں میاں محمد شریف مرحوم کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ بیگم کلثوم نواز کی چوتھی برسی گزشتہ روز انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ لیگی کارکنوں کی جانب سے ان کی مغفرت اور بلند درجات کیلئے قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کی گئی۔