وقت بدل گیا، زمانے بدل گئے، حکمران بدل گئے مگر نہ بدل سکے تو بس پاکستان کے غریب عوام کے حالات نہ بدلے۔ پاکستان کے عوام کل بھی مصائب اور مسائل کی یلغار میں آہ و فغاں کرتے نظر آتے تھے اور آج بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ غرض یہ کہ عوام کے مصائب کا سفر نہ تو کبھی کسی مقام پر رُکا اور نہ ہی کبھی کسی منزل پر تھما، جبکہ مصائب کی یلغار کی بنیادی وجہ مالی اور معاشی بدحالی ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والی تباہی آنے والے دنوں میں شدید مہنگائی کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ شہروں کے مکیں شاید اس بات کو نا سمجھ سکیں کہ بارشوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، دیہات میں بارشوں کے اختتام کے ایک ماہ بعد کاشتکاری کا سلسلہ شروع ہو گا۔ وقتی طور تو امداد آ رہی ہے، منڈیوں میں سبزیاں اور پھل مہنگا ہی سہی مگر دستیاب تو ہے۔
ہم جو کشکول لیے پھرتے ہیں دنیا بھر میں
اپنی اس ذلت و رسوائی پہ رونا آیا
اور کیا کہیے کہ کس بات پہ ہم روئے ہیں
سستے بازاروں کی مہنگائی پہ رونا آیا
امدادی سلسلہ ختم ہونے کے بعد جب اپنی زراعت پر انحصار کیا جائے گا تب نظر آئے گا کہ نئی فصل کی تیاری میں چار سے چھ ماہ درکار ہیں جبکہ ان فصلوں کی تیاری پر آنے والے اخراجات دوگنا بڑھ جانے کے باعث مہنگائی وہ ریکارڈ بنائے گی کہ عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا عام آدمی کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ یہ کہنا کسی صورت بھی غلط نہیں کہ اب آنے والا ہر دن پاکستان کے سفید پوش طبقے کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا۔ بارشوں اور سیلاب کے باعث سرکاری گوداموں میں رکھی لاکھوں ٹن گندم تباہ ہو چکی ہے۔ پاکستان میں آٹے کا بحران سر اٹھا چکا ہے، پنجاب حکومت آٹا درآمد کرنے کے لیے منصوبے ترتیب دے رہی ہے۔ تقریباً پندرہ لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہو چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں وہ چارے کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل سے دوچار ہیں، کوئی خاطر خواہ انتظامات نا ہونے کے باعث لائیو سٹاک ایک خوفناک منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ دو ہزار روپیہ کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا گوشت غریب
عوام کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ جبکہ لمپی پاکس اور سیلاب کے بعد گائے کا گوشت اور دودھ نا پید ہو چکا ہے۔ قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا اور کاروبار کا نا ہونا ایک نئے المیے کو جنم دے رہا ہے۔ سفید پوش طبقے کی ماہانہ آمدن مہینے کی پندرہ تاریخ سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے، مہینے کے آخر تک جیب اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ زندگی بھاری لگنے لگتی ہے۔ پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی آئے روز بڑھتی قیمتوں سے سفید پوش اور غریب لوگوں کے بجٹ اور زندگی پر کیا اور کتنا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ شاید ہی کسی کو ہو۔ یہاں آٹا بحران ختم ہوتا ہے تو گیس کا بحران شروع ہو جاتا ہے، گیس کے بحران سے نکلتے ہیں تو چینی اور پٹرول کا بحران سر اٹھائے ملتا ہے۔ ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے تقریباً دنیا کے سب ہی ملکوں میں ضروریات ِ زندگی کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ ایک فطری عمل بھی ہے کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس رفتار سے اضافہ چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہوا ہے۔ غالباً سب ہی جانتے ہیں جس چیز کے طلب گار زیادہ ہوں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا میں لوہے، کوئلے اور پٹرول وغیرہ کے ذخیرے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے پیش نظر جس تیزی سے کم ہو رہے ہیں اس تیزی سے نئے ذخیروں اور وسائل کی دریافت نہیں ہو سکتی۔ لیکن پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویشناک ہے۔ گزشتہ چند سال سے یہاں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہاں پہلے ہی بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے تھے رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی۔ یہ تباہی متاثرین کے لیے کسی آفت سے کم نہیں، لیکن جو علاقے بچ گئے ہیں وہ بھی پورا سال طوفانِ مہنگائی کی گرفت میں رہیں گے۔ سوات کی عالی شان عمارتیں پانی میں تنکوں کی طرح بہہ گئیں، جو بچ گئیں انہیں سیلابی پانی شدید متاثر کر گیا، مری، ناران اور دیگر سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں۔ اب روز بروز اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہ راست اثر ان اشیا کی قیمتوں پر ہوتا ہے۔ باقی ماندہ کسر تیل، پٹرول، پھلوں، سبزیوں کی ہر دوسرے دن بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پوری کر دی ہے۔ پٹرول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر آئے روز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کی صورتحال بھی پٹرول اور تیل سے مختلف نہیں ہے۔ دن بہ دن نا قابل ِ برداشت حد تک بڑھتی مہنگائی اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب یہاں کا عام انسان لقمہ خوراک کو ترس جائے گا۔ مہنگائی کی حالیہ لہر اور حکومتی اراکین کی خاموشی یقیناً قابل ِتشویش ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت شدید مہنگائی کی زد میں ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کے قومی بحرانوں کے وقت ہمارے سیاست دان سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے، الٹا ایک دوسرے کو طعنے دینے اور نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کو ہی دیکھ لیں جس میں اپوزیشن اسے حکومت کی نااہلی قرار دے رہی ہے جب کہ بعض حکومتی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ سیلاب گزشتہ حکومت کی نا اہلی کے باعث آیا ہے۔ ہماری بدقسمتی کا مزید اندازہ کیجئے کہ کسی بھی مقام پر ہمارے سیاست دان یہ نہیں سوچ رہے کہ سیلاب کیسے بھی آیا، اس کا ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہو مگر اس سب میں پس تو بیچارے غریب عوام رہے ہیں۔ جس کا تعلق نہ تو کسی مل مافیا سے ہے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھے کسی شاہا نِ وقت سے۔ انہیں تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے جو میسر نہیں۔ یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں چینی، آٹا، گھی، تعلیم اور ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ جب ماں باپ اپنے بچے کے لیے دودھ نا خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے تو سفید پوش اور غریب عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے گی۔ یہ طبقے آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلوں کو پار کریں گے۔۔۔