میں ’نئی بات میڈیا نیٹ ورک‘ کے اپنے دفتر جانے کے لئے جب بھی مین بلیوارڈ گلبرگ سے انڈسٹریل ایریا کی طرف گاڑی موڑتا ہوں تو میرے سامنے ہوم اکنامکس کالج کی سرسبز اورشاندار عمارت آجاتی ہے، اس کالج کو فروری2018 سے یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس کا درجہ دیا جا چکا ہے ، مجھے اس کے ساتھ ہی نپولین کا قول یاد آجاتا ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا، میں ایک بہترین قوم کے لئے اپنے ہمسائے میں اس یونیورسٹی کی طرف دیکھتا ہوں اور رجائیت پسندی کے ساتھ مسکرا دیتا ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ معاشیات اور اخلاقیات کی بگڑتی صورتحال نے گھروں اور معاشروں کو تباہ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ایسے میں اچھا مستقبل اچھی مائیں ہی دے سکتی ہیں جو نہ صرف اچھی روایات کے حامل ہمارے مہذب گھرانوں سے آ سکتی ہیں اوراس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم سے۔ یہی بااعتماد اور باحوصلہ مائیں اچھے مرد بھی دے سکتی ہیں اپنے بیٹوں کی صورت میں، ان کی اچھی تربیت کی صورت میں یعنی ہمارا کل ان کے ہاتھ میں ہی ہے۔
ہوم اکنامکس کالج کو آج سے ساڑھے چاربرس پہلے جب یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا توخیال تھا کہ اس کے ذریعے گھروں اور معاشرے کی ایجوکیشن اور سائنس میں بہتری آئے گی۔ یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس کا فزیکل سٹرکچر مضبوط ہو گا اور یہ اپنے شعبے کی تحقیق کا مرکز بنے گی مگر بدقسمتی سے نصف صدی سے کہیں زیادہ تاریخ اور مہارت رکھنے والے اس ادارے کی بنیاد، شناخت اور مہارت کو جدت، تبدیلی اور ترقی کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے۔
اسی برس اپریل میں ہونے والی سینڈیکیٹ کی میٹنگ میں یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس میں پانچ جنرل فیکلٹیز،پچیس ڈپیارٹمنٹس اور ملٹی پل ڈگری پروگراموں کی منطوری دے دی گئی ہے اور اس کی تاریخ، پہچان اورخصوصیت یعنی ہوم اکنامکس کوفیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈپیارٹمنٹ آف فیملی سائنسز کے تحت ایک بی ایس تک محدود کر دیا گیا ہے۔
چھیاسٹھ برس سے قائم اس منفرد تعلیمی ادارے کو جس کی اسی میدان میں یونیورسٹی آف اوکلاہاما سے کریکولر ڈویلپمنٹ اور ٹیچرز ٹریننگ میں پارٹنر شپ بھی ہے، جو خواتین کے لئے پاکستان کا پہلا سکل بیسڈ اور انٹرڈسپلنری ایجوکیشن سسٹم ہے کو ایک جنرل یونیورسٹی بنایا جا رہا ہے جو اس کے سپیشلائزڈ سٹاف اور پرپز فل بلڈنگ کے ساتھ بھی ظلم ہے۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ ادارے کو پہچان دینے والی پروفیسرز اور لیکچررز کو دوسرے کالجوں میں پھینکا جا رہا ہے اور اس کے ایک سو چونتیس کنال کے کیمپس میں فیکلٹیز اور ڈپیارٹمنٹس کا جمعہ بازار لگایا جا رہا ہے۔ آپ اس موو کے پیچھے لوگوں سے بات کریں تو وہ آپ کو آگے بڑھنے کی ایک لچھے دار کہانی سنائیں گے مگر وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ کس شاندار مقبرے پر اپنی خواہشات کا کاغذی محل کھڑا کر رہے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ موجودہ حکومت اس وقت جنون کی حد تک نئی یونیورسٹیاں بنانے کے درپے ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ جب وہ الیکشن میں جائے تو اس کی کارکردگی میں لکھا ہو کہ اس نے ہر ضلعے میں ایک نئی یونیورسٹی بنا دی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ نئی یونیورسٹیاں نہیں بنائی جا رہیں بلکہ پہلے سے موجود جامعات اور اچھے ڈگری کالجز پر یونیورسٹیوں کے بورڈ لگائے جا رہے ہیں۔
حال یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے وہ پروفیسرز جنہوں نے اپنے اپنے کالجوں کو معیاری تعلیمی ادارے بنانے میں عمریں کھپا دیں انہیں ان کے عشق بن جانے والے اداروں سے نکالا جا رہا ہے کہ یونیورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں جبکہ اپنی زندگیاں اپنے اداروں کو دینے والے ہائیر ایجوکیشن ڈپیارٹمنٹ کے ملازمین ہیں لہٰذا ان اساتذہ کے لئے ان کے کالجوں کا جامعات بن جانا ایک ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔
دوسرا سانحہ یہ ہے کہ حکومت ان تمام یونیورسٹیوں کو مطلوبہ وسائل دینے کی اہلیت نہیں رکھتی جس کے بعد یہ ایسی ہی پھٹیچر یونیورسٹیاں بن رہی ہیں جیسے ماضی میں کارپوریشن کے سکول ہوا کرتے تھے اور انہیں عوام کھوتی سکول کہا کرتے تھے۔
واپس ہوم اکنامکس یونیورسٹی کی طرف آتے ہیں، بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہوم اکنامکس کی تعلیم کی کیا ضرورت ہے اور پوچھنے والوں کی اکثریت سماجی اورمعاشرتی حوالوں سے جاہل کا درجہ رکھتی ہے۔ کورونا سے پہلے شاید لوگوں کو کم سمجھ آتی مگر اس عالمی وبا نے ہوم مینجمنٹ کی اہمیت کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ جہاں نوکری اور کاروبار کرنا باقاعدہ سائنس ہیں وہاں اس سے بھی بڑی سائنس گھر چلانا ہے اور عورتوں کا مردوں کے ساتھ مل کر چلانا ہے۔ آج مہذب اقوام اپنی ترقی کو جی ڈی پی یا جی این پی سے نہیں بلکہ اپنے افراد کی خوشی اور اطمینان سے جانچتی ہیں۔ ایک آئیڈیل ہوم لائف کا جدید سائنسز کے ذریعے تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
فن لینڈ اور آئس لینڈ جیسی ریاستیں جہاں ہمیں انسانی فلاح کے بہترین اشاریے ملتے ہیں وہاں ہوم اکنامکس کو سکولوں میں پڑھایا جانے والا لازمی مضمون بنا دیا گیا ہے اور ہم اس کے برعکس چل رہے ہیں کہ ویمن ڈویلپمنٹ ، ٹریننگ اور ریسرچ کا اگر کوئی ادارہ خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے تو ہم اسے ایک عام یونیورسٹی میں بدلنے جا رہے ہیں جبکہ میں اس سے بھی آگے سوچ رہا تھا کہ ہوم اکنامکس کسی نہ کسی سطح پر لڑکوں کے لئے بھی لازمی قرار دے دینا چاہئے۔
ایک المیہ اور برپا ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت صحت، تعلیم، قانون اور سیاست سمیت ہر شعبے میں ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کے مشوروں کے بغیر اصلاحات کے نام پر تباہی مچا رہی ہے۔ ہر شعبہ چیخ رہا ہے، رو رہا ہے اور یہی حال ہوم اکنامکس ایسوسی ایشنز لاہور، اسلام آباد، کراچی اور پشاور کا ہے۔ وہ احتجاج کر رہی ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں۔
راجا یاسر ہمایوں سے عثمان بزدار تک سب کو ایک جدید یونیورسٹی کا خواب دکھایا جا رہا ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ بادشاہی مسجد کی جگہ ہم ایک نئی مسجد بنا دیتے ہیں کہ وہ پرانی ہوچکی، شاہی قلعہ آوٹ ڈیٹڈ ہوچکا وہاں پنچ ستارہ ہوٹل بنا یا جا سکتا ہے اور مینار پاکستان سے زیادہ خوبصورت ایک نقلی ایفل ٹاور۔ ہمیں برسوں اور عشروں کی تاریخ رکھنے والے اداروں کی شناخت اور مہارت کو محفوظ بنانا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ ہم نے اچھی مائیں دینے کے ایک تحقیقی ادارے کے ساتھ یہ ظلم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ جب ہمارا خاندانی اور معاشرتی نظام تباہ ہو رہا ہے تو ہمیں اچھی مائیں کیوں نہیں چاہئیں، اس شعبے میں سپشلائزیشن کیوں درکار نہیں۔
میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھے کس سے مداخلت کی اپیل کرنی چاہئے، کیا خاتون اول بشریٰ صاحبہ سے، جواس کا وژن اور ادراک رکھتی ہیں۔ جنہوں نے ایک نیا عمران خان تشکیل دے دیا ہے۔ وہ عمران خان جو آج خاندانی نظام ، معاشرتی روایات اورمذہب کی اچھی اچھی باتیں کرتا ہے۔ کیا وہ ویمن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اس تاریخی ادارے کے مینڈیٹ، دائرہ کار اور سکوپ کو بچا سکتی ہیں کہ یہ دورسپیشلائزیشن کا ہے اور کچھ لوگ ایک سپیشلائزڈ ادارے کوجنرل یونیورسٹی میں بدلنے جا رہے ہیں، کتنے کم بین ہیں، کتنے کوتاہ نظر ہیں جنہیں اپنے برپا کئے ہوئے نقصان اور ظلم کا اندازہ ہی نہیں۔