موضوعات ایک سے زیادہ ہیں جن پر لکھنا ضروری ہے۔ کچھ احباب کی طرف سے بھی اس بارے میں یادہانی کرائی گئی ہے۔ مرد حُر بطل جلیل سید علی گیلانی 92سال کی عمر میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں۔ ان کا تذکرہ بھی پہلے ہونا چاہیے۔ لیکن طالبان کا ذکر بھی نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا کہ بیس سال کی طویل جدوجہد بے پناہ قربانیوں اور ہر طرح کے مسائل کو برداشت کرنے کے بعد آج وہ بیس سال پہلے سے بڑھ کر پورے افغانستان میں اپنی عمل داری ہی قائم نہیں کر چکے ہیں بلکہ کابل میں اُن کی حکومت بھی قائم ہو چکی ہے۔ چند ہفتے قبل تک کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ پورے افغانستان میں طالبان بغیر کسی مزاحمت کے اس طرح جلدی سے اپنی عملداری قائم کرلیں گے اور امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کا انخلاء عمل میں آجائے گا۔ 30اگست کی رات 12بجے افغانستان میں متعین امریکی کمانڈر میجر جنرل کرسٹوفر ڈرونا امریکی طیارے C-17کی سیڑھیوں پر چڑھ کر طیارے کے اندر قدم رکھ رہا تھا تو اُس وقت افغانستان کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ اقبال نے کہا تھا افغان باقی ، کہسار باقی، الملک للہ، الحکم للہ ۔ تو پھر اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر دنیا نے دیکھ ہی نہ لی بلکہ حق باری تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں جو کہہ رکھا ہے۔ "جسے میںچاہوں عزت دوں، جسے میں چاہوںذلت دوں" اُس کا عملی نمونہ بھی دنیا کے سامنے آ گیا۔ دُنیا کو ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں کے لا دین عناصر کو بھی مان لینا چاہیے کہ دنیاوی ساز و سامان اسلحے اور مال و زر کی اپنی اہمیت ہے لیکن قوتِ ایمانی وہ دولت ہے کہ جس سے بڑی سے بڑی منزل کو سر کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ جو دنیا کی سُپر پاور ہے وہ اس المناک اور عبرت ناک انجام سے کیسے دوچار ہوا ؟ اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جو ناک رگڑی اور ٹھوکریں کھائیں یہ سب کچھ ایسا نہیں ہے کہ جس کا سرسری طور پر ذکر کرکے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم نے طالبان کو خراجِ عقیدت اور تحسین پیش کرنے کا فریضہ سر انجام دے دیا ہے۔ انشاء اللہ اس بارے میں تفصیلی ذکر اگلے کسی کالم میں ہوگا۔ اب ہم واپس بطل حریت، مردِ حر، بزرگ کشمیر ی راہنما سید علی گیلانی کی طرف آتے ہے۔ سید علی گیلانی کا ذکر آئے تو آنکھیں ادب و احترام سے جھک ہی نہیں جاتی ہیں بلکہ پر نم بھی ہو جاتی ہیں۔ وفا، ایثار، قربانیوں، جدوجہد ، حریت پسندی، پاکستان سے گہرے لگاؤ اور محبت کا استعارہ سید علی گیلانی اپنی طویل عمر میں ایک لمحے کے لیے بھی اپنے نظریہ ، اپنے موقف اور اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور کشمیر کا پاکستان سے الحاق ان کے لیے ایمان و یقین کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ ساری زندگی اس پر ڈٹے رہے اور اپنے پائے استقامت میں لغزش نہ آنے
دی۔ اقبال نے کہا تھا ؎ نادان جھک گئے سجدے میں جب وقت ِ قیام آیا لیکن بطلِ حریت سید علی گیلانی ایک لمحے کے لیے بھی جھکے، ڈرے یا بکے نہیں۔ وہ پوری مضبوطی کے ساتھ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور اس کے لیے نہ صرف بے پناہ مصائب ، مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کیا بلکہ 30سال تک نظر بندی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
کشمیر کے حوالے سے گزشتہ 74سالوںمیں کیا کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان نے جنگیں لڑیں، بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا، عالمی رائے عامہ کے منفی اور یکطرفہ پروپیگنڈے کا سامنا کیا لیکن ان سب کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کی حکومت اور اس کے اربابِ اختیار و اقتدار، اس کے حکمرانوں اور اس کے مقتدر حلقوں کے مؤقف میں فرق نہ آیا ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آزادی کی جنگ لڑنے والے بڑے بڑے راہنماؤں کے پائے استقامت میں بھی لغزش آتی رہی لیکن آفرین ہے بوڑھے سید علی گیلانی پر جو کشمیر کی آزادی، پاکستان سے محبت اور الحاقِ پاکستان کے مؤقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ ہمارے ہاں مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے راہنما اور ہمارے حکمران اور ہمارے صاحبان اقتدار و اختیار مختلف ادوار میں دباؤ کا شکار ہو کر ایسے فیصلے کرتے رہے ہیں کہ جن سے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ اور تاریخی مؤقف کو زک پہنچتی رہی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیادت نے آزاد کشمیر میں اپنے اقتدار کے راستے ہموار کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ انہیں وزارتوں ، بڑے گھروں اور اسلام آباد کے محلات میں رہنے اور قیمتی گاڑیوں میں سفر کرنے کے مواقعے تو ملتے رہے لیکن کشمیر کی آزادی اور کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے مؤقف اور نظریے کودن بدن کمزور کیا جاتا رہا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ مقبوضہ کشمیری میں حریت کانفرنس سے تعلق رکھنے والے نامی گرامی کشمیری راہنما جن میں میر واعظ عمر فاروق قابلِ ذکر ہیں وہ بھارتی تسلط سے کشمیر کی آزادی کا تذکرہ تو ضرور کرتے رہے ہیں لیکن کشمیر کے پاکستان سے الحاق یا کشمیر میںاقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کے مطالبے کا کھل کر اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ اظہار کرنے سے گریز کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ مرد حر سید علی گیلانی تھے جو ہر موقع پر بھارتی تسلط اور جبر و استبداد کو للکارتے ہی نہیں رہے ہیں بلکہ اپنے مؤقف پر بھی مضبوطی سے ڈٹے رہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ سید علی گیلانی کو بھارتی حکومت اور اداروں کی طرف سے کتنی ترغیبات اور تحریصات پیش نہیں کی گئی ہوں گی۔ یقینا ایسا ہوتا رہا ہوگا لیکن انھوں نے اس طرح کی کسی ترغیب و تحریص کو پرکاہ برابر بھی اہمیت نہیں دی۔
سید علی گیلانی 92سال کی عمر میں اللہ کو پیارئے ہوئے۔ کشمیر کے شہر بانڈی پورہ میں پیدا ہونے والے سید علی گیلانی کی حیاتِ مستعار کے تقریباً تیس سال کا عرصہ نظر بندی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے میں گزرا۔ کیا کوئی اور کشمیری لیڈر ایسا ہے جو اتنی لمبی قید و نظر بندی اور مصائب و تکالیف سے بھر پور اور قربانیوں اور جدوجہد سے عبارت زندگی کی مثال پیش کر سکے؟ سید علی گیلانی پچھلے گیارہ سالوں سے سری نگر میں نظر بندی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس سے قبل بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی کوئی ایسی جیل نہیں ہے جہاں انھیں قید و بند کی صعوبتیں بردراشت نہ کرنی پڑی ہوں۔ تہاڑ، جودھ پور، راچنی، اُدھم پور، بنگلور، کوٹ بھلوال، بارہ مولا،کھپواڑہ اور سینٹرل جیل سری نگر میں اُن کا کم و بیش دو دھائیوں پر مشتمل طویل عرصہ قید کی حالت میں گزرا۔
سمجھنے کی بات ہے کہ کشمیر کی آزادی اور پورے کشمیر کا پاکستان سے الحاق جون 1947کے تقسیمِ ہند کے منصوبے کا وہ حصہ ہے جو بدقسمتی سے ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہی ممتاز کشمیری راہنماؤں جن میں چوہدری غلام عباس مرحوم، سردار محمد ابراہیم خان، کرنل شیر احمداور سردار عبدالقیوم خان مجاہد شامل تھے انہوں نے کشمیر کی ڈوگرا راج سے آزادی اور کشمیر کے پاکستان سے الحاق کو اپنی منزل قرار دے دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ قائد اعظم کے قول کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسے پاکستان میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے بڑے بڑے راہنما اور قیام پاکستان کے بعد یہاںقائم ہونے والی حکومت کے زعماجن میں بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور جناب لیاقت علی خان وغیرہ شامل تھے وہ بھی کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے مطالبے کو ہر صورت میں پورا کرنے کے لیے ہر طرح کی کوششیں کر رہے تھے۔ بھارت نے اکتوبر 1947میں کشمیر میں اپنی فوجیں بھیجیں تو پاکستان کو بھی مجبوراً جوابی کاروائی کرنی پڑی اور موجودہ آزاد کشمیر میں شامل علاقے ڈوگرا راج اور بھارتی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کروا کریہاں آزاد حکومت قائم کر دی گئی۔ بھارت کشمیر کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے گیا جس پر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرا دی گئی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے استصوابِ رائے کی قراردادیں اقوامِ متحدہ نے منظور کر لیں۔ ان قراردادوں پر عملدآمد ہونا باقی ہے۔ اس دوران میں ہم نے کیا کیا پیترے بدلے اور کشمیر کے بارے میں اپنے دیرینہ مؤقف میں کیا کیا تبدیلیاں لے نہیں کر آئے ،یہ ایسی المناک داستان ہے جس کے ذکر سے دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ 92سالہ بزرگ کشمیری راہنما کوپاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سری نگر کی قبرستا ن میں منوں مٹی کے نیچے دبا دیا گیا ہے لیکن اُن کی آوازاس وقت تک کشمیرکی وادیوں ، کہساروں، پہاڑوں، ریگزاروں اوربرف زاروں میں گونجتی رہے گی جب تک کشمیری اپنے آزادی اور الحاق پاکستان کے خواب کو پورا ہوتا نہیں دیکھ لیتے۔