یہ بات انتہادرجے کی حد تک ناقابل فہم ہے اگر عمران خان حکومت جائز طور پر بھی سمجھتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کو آزاد اور شفاف بنانے کے لئے ووٹ ڈالنے کے روایتی طریقہ کار کے برعکس ملک بھر کے اندر اور یکدم الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (EVM'S) کا استعمال مفید اور کارآمد ثابت ہو گا تو اس امر کو اتنا بڑا تنازع بنانے کی آخر کیا ضرورت ہے کہ وزیراعظم بہادر کی کابینہ کے تین اہم وزراء الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے آئینی ادارے کی کھلی مذمت پر اتر آئیں اور اس کے سربراہ سمیت تمام ذمہ داروں کو سرعام گالیوں سے نوازیں… اس طرح اندرون اور بیرونِ ملک اپنے چہروں کو بے نقاب کریں اور پوری قوم بھی سرشرم سے جھکا دینے پر مجبور ہو جائے… انتخابات کا آزادانہ اور شفاف طریقے سے انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے جو اپنے دائرہ کار کے اندر جتنا آزاد اور خودمختار ہو گا اتنا ہی انتخابات کے غیرجانبدارانہ ہونے کا یقین اور اطمینان حاصل کیا جا سکے گا… الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے استعمال کا تجربہ پہلی مرتبہ پاکستان میں نہیں ہو رہا… دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں اس کو آزمایا جا چکا ہے… اکثریت نے اس کو ترک کر دیا ہے جہاں جاری ہے وہاں بھی سارے ملک کے اندر نہیں بلکہ جیسا کہ امریکہ میں ہوتا ہے، کچھ ریاستوں نے اس کو ترجیح دے رکھی ہے مگر زیادہ میں روایتی طریقے کو ہی مفید اور نتیجہ خیز سمجھا گیا ہے… یورپ کے کئی ملک ایسے ہیں جنہوں نے اسے قطعی طور پر مسترد کر دیا ہے … دو ایک نے برقرار رکھا ہے… بھارت کو اسے آزمانے میں 22 سال لگ گئے… اس کے باوجود وہاں کی یکے بعد دیگرے حکومتوں کو جزوی کامیابی ہی حاصل ہو سکی ہے مگر پاکستان میں ہمارے کھلاڑی وزیراعظم کو اصرار ہے اور انتہادرجے کی ضد ہے کہ 2023ء یا اس سے قبل جب بھی عام انتخابات منعقد ہوں، دور دراز کے دیہاتوں سے لے کر بڑے شہروں تک تمام کے تمام پولنگ سٹیشنوں کے اندر ان کی حکومت کی نگرانی میں تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں نصب کر دی جائیں اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو پاکستان کے عوام کی اکثریت کا فیصلہ قرار دے کر قبول کر لیا جائے… الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جس کو آئین اور قانون کی روح سے اس ضمن میں حتمی فیصلے کا اختیار حاصل ہے، وفاقی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی تیارکردہ ماڈل مشینوں کا جائزہ لیا اور اس کے بعد حکومت اور پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی نمائندہ سینٹ قائمہ کمیٹی کو ایک دو نہیں 37 اعتراضات سے آگاہ کیا جن کی بنا پر ان مشینوں کے استعمال کے ذریعے پورے ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد مشکل بھی ہو گا اور نت نئے تنازعات کے اٹھ کھڑے ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پورے ملک کے اندر قائم پولنگ بوتھ میں نئی تیارکردہ چالیس لاکھ مشینوں کی فراہمی اور ان پر اٹھنے والی ایک سو ارب سے زیادہ قومی خزانے کی رقم پر مشتمل خرچہ جو ہو گا سو علیحدہ … مزید برآں یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نزدیک اتنی کثیر تعداد میں مشینوں کو چلانے کے لئے اگلے دو سال کے دوران ضروری عملے کی تربیت اپنی جگہ مسائل پیدا کرے گا… ان سب امور کو اگر یقینی بنا بھی لیا جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ماہرین کی رائے ہے کہ مشینوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے مرضی کے نتائج حاصل کرنا چنداں مشکل نہ ہو گا… مگر اکیلے الیکشن کمیشن کی یہ رائے نہیں اگرچہ آئینی لحاظ سے اس کے صائب ہونے میں شبہ نہیں کیا جا سکتا مگر سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں جس کے اہتمام پر وزراء کی جانب سے الیکشن کمیشن پر گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی… فافن، PILDAT اور سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور شمشاد جیسے ماہرین نے بھی جو آرا پیش کیں وہ کم و بیش الیکشن کمیشن کی 37 اعتراضات پر صاد کرتی نظر آئیں…
اسی پر اکتفا نہیں پارلیمنٹ کے اندر بھرپور نمائندگی رکھنے والی اپوزیشن کی دو سب سے بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی آئندہ انتخابات میں ان مشینوں کے استعمال کی تجویز کو بیک آواز ہو کر مسترد کر دیا… سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ان کی جانب سے ایسے ایسے سوالات اٹھائے گئے جن کا مسکت جواب دینا حکومتی نمائندوں کے لئے آسان نہیں تھا چنانچہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس نے ان مشینوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا موقع دینے کے لئے انٹرنیٹ کے غیرمحفوظ طریقہ کار دونوں کو مسترد کر دیا ہے یوں اپنی تجویز کو جسے حکومت نے معلوم نہیں انا کا اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا ہے مسترد اور ناکام ہوتا دیکھ کر حکومتی وزراء اس حد تک برہمی کا شکار
ہو گئے کہ وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی صاحب کو اپنی زبان پر کنٹرول نہ رہا، انہوں نے بلادھڑک الیکشن کمیشن پر پیسے لینے کا الزام جڑ دیا اتنے بڑے آئینی ادارے کی توہین پر اس حد تک اتر آئے کہ غصے سے مغلوب ہو کر کہا کہ جہنم میں جائے یہ ادارہ ، اسے تو آگ لگا دینی چاہیے… بعدازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے چیف الیکشن کمیشن کی ذات کے بارے میں کہا ان کے نوازشریف کے ساتھ تعلقات ہیں اور بابر اعوان صاحب نے بھی الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کا ترجمان جیسے الزامی القابات سے نوازا یوں پورا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا… چیف الیکشن کمشنر نے اس تمام تر تکلیف دہ صورت حال پر یہ اپنا تمام تر ادارہ جاتی ردعمل دینے کے لئے کل پیر کو اجلاس بلا لیا ہے… ماہرین آئین و قانون کہتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اتنے اختیارات یقینا رکھتے ہیں کہ تینوں وفاقی وزراء سے فوری طور پر اپنے خلاف لگائے جانے والے سنگین الزامات کا کم از کم وقت کے اندر قطعی اور ناقابل تردید ثبوت طلب کریں… بصورت دیگر ان کی گرفتاری اور نااہلی کا حکم جاری کر دیں… اگر ایسا ہوا تو اتنا بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہو گا کہ انتہائی کمزور تین سالہ کارکردگی کی کپکپاتی ٹانگوں پر کھڑی عمران حکومت کے لئے اس سے باعزت طریقے کے ساتھ عہدہ برآ ہونا تقریباً ناممکن ہو جائے گا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھلاڑی عمران خان کو ملکی سیاست کے میدان میں قدم رنجا ہوئے 20، 22 برس کا عرصہ ہو چکا ہے … گزشتہ تین سال سے حکمرانی کا منصب بھی سنبھالے ہوئے ہیں … کیا ان کے اندر اور ان کے قریبی رفقاء میں اتنی سوچ سمجھ بھی نہیں پائی جاتی کہ اس بات کا ادراک کر لیں کہ محض اپنی مفیدِ مطلب تجویز کو منوانے کی خاطر الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے معتبر آئینی ادارے سے سیدھی ٹکر لے لیں اس کے چیف سمیت تمام ذمہ داران کو گالیوں اور ایسے ایسے القابات سے نوازیں کہ 2014 کے دھرنوں میں بھی جب ملک کی اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہ بنی ہوئی تھی اتنی گھٹیا زبان استعمال نہ کی گئی جتنی موصوف کی شہ پر ان کے وزراء نے اب کی ہے… کئی صاحبانِ نظر اس کی وجہ فارن فنڈنگ کیس کے قضیے کو قرار دے رہے ہیں جس کی تلوار ان کے سر پر لٹکی ہوئی ہے… کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں تمام ضروری تحقیقات مکمل ہو چکی ہے… چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے آخری اور حتمی فیصلے کی دیر ہے عمران خان کسی بھی حکومتی عہدے کے لئے نااہل قرار دیئے جا سکتے ہیں… جناب وزیراعظم کو اس صورت حال اور اس سے متعلقہ نزاکتوں کا پوری طرح احساس و ادراک ہے کہ کسی وقت بھی بگل بج سکتا ہے اور عمران خان بہادر کو شاید انتخابات سے پہلے ہی گھر کی راہ لینی پڑی… لہٰذا انہوں نے اور ان کے خوشامدی وزراء نے اپنے لیے پناہ کا یہی راستہ ڈھونڈا ہے… چیف الیکشن کمشنر کی ذات کو متنازع قرار دے دیاجائے تاکہ وہ اتنا بڑا فیصلہ صادر کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں لیکن فارن فنڈنگ کا کیس تو الیکشن کمیشن کی فائلوں میں مکمل پڑا ہے جیسے کوئی نیا چیف الیکشن کمشنر بھی آ جائے تو اسے صرفِ نظر نہیں کر سکے گا مگر نئے الیکشن کمشنر کا تقرر کون کرے گا… پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی نشستیں خالی پڑی ہیں… وزیراعظم اور اپوزیشن کا ان پر اتفاق نہیں ہو پا رہا تو نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر کیسے اور کیونکر صاد کیا جا سکے گا تو کیا عمران حکومت اس حد تک مغضوب الغضب ہو گئی ہے کہ وہ پورے کے پورے الیکشن کمیشن کے ادارے کو ہی نابود کرنے پر تلی ہوئی ہے…
اس ساری صورت حال کا خوفناک اور المیاتی پہلو یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات کو ان کے انعقاد سے 2 برس پہلے ہی متنازع بنا دیا گیا ہے جب طریق کار پر ہی شدید اختلافات پیدا ہو جائیں گے تو انتخابات کیسے اور کیونکر ہوں گے… ان کے نتائج کو کون تسلیم کرے گا… کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران حکومت کو کچھ اندرونی جائزوں کے بعد اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کی مجموعی تین سالہ کارکردگی کے انتہائی ناقص اور عوام میں نامقبول ہونے کی وجہ سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں کامیابی خاصی حد تک ہو گی… لہٰذا انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کو حق دینے کا راگ چھیڑا ڈالا ہے تاکہ 2018ء کے انتخابات کے RTS سسٹم سے بھی زیادہ بڑی چھیڑخانی کرنے کی خاطر مرضی کے نتائج حاصل کرنے والا نظام رائج کرنے کی تدبیر اختیار کی جائے… آئینی ادارے اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور جملہ ماہرین اسے حددرجہ ناقص قرار دے دیں تو ایک ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا جائے تاکہ پورے کا پورا انتخابی عمل ہی سوالیہ نشان بن جائے اور نہ ٹوٹے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری والی صورت حال پیدا ہو جائے… اپوزیشن نے تو لامحالہ ایسے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنا ہے… ہو سکتا ہے عمران بہادر یکطرفہ انتخاب کرا کے خود ہی اپنی اور اپنی جماعت کی کامیابی کا اعلان کر دیں اور اپنے آپ کو اگلی مدت کا وزیراعظم بھی مقرر کرلیں، ایسا مگر وہ کر نہیں پائیں گے تاہم عمران خان کے ان ہتھکنڈوں کی آڑ میں ان طاقتور عناصر کے عزائم شاید پورے ہو جائیں جنہوں نے 1970 سے لے کر آج تک صحیح معنوں میں آزادانہ شفاف انتخابات کو نہ صرف سخت ناپسند کیا ہے بلکہ ان کے نتائج کو بھی عملاً تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے… خواہ ملک کے دوٹکڑے ہو جائیں اور ہماری بہادر اور ملک کے چپے چپے کے دفاع کے لئے مرمٹنے والی افواج کو بھارت جیسے کمینے دشمن کے آگے ہتھیار پھینکنا پڑیں… ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے اور دوسرے کو انتہائی نامعقول الزام کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کے تابعدار ججوں کے ذریعے برطرف کر کے زندگی بھر کے لئے نااہل قرار دے دیا جائے… ان قوتوں کا بس چلے تو عام انتخابات نام کے کسی عمل کو ہی پاکستان کے سیاسی نقشے سے اکھاڑ کر پھینک دیں… اب جو عمران خان جیسے ان کے پسندیدہ وزیراعظم کے قدومِ میمنت لزوم کی وجہ سے مستقبل کا انتخابی عمل ہی متنازع بنا کر رکھ دیا جا رہا ہے تو کیا اس سے ان قوتوں کی خواہشات پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں جن کے لئے آزادانہ اور شفاف انتخابات کا عمل ہی ہمیشہ سے ناگوار خاطر رہا ہے مگر ہمارا یہ پیارا وطن اور اس میں بسنے والی پاکستانی قوم ایسی بھی گئی گزری نہیں کہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے… جمہوری قوتیں آج بھی بہت زیادہ مستعد اور آمرانہ عزائم کے خلاف سینہ سپر ہیں… انہوں نے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے لئے سنیارٹی کا اصول عملاً منوا لیا ہے… عمرانی حکومت کے میڈیا اتھارٹی جیسے مجوزہ قانون کو اس کے آخری اور قطعی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی راندئہ درگاہ قرار دے کر رکھ دیا گیا ہے اور اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ڈھول کا پول بھی پوری قوم کے سامنے کھل گیا ہے… وہ ہر لحاظ سے آزادانہ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے اصول کو بھی منوا کر دم لے گی…