سعادت حسن منٹو کا افسانہ ”نیا قانون“ 1938ء میں شائع ہوا۔ اس افسانے کا پس منظر انڈیا ایکٹ 1935ء تھا جس میں انگریزوں کی طرف سے ہندوستان کو کچھ خودمختاری اور شہری حقوق دینے کی بات کی گئی تھی لیکن عملی طور پر ایسا نہ تھا۔ کہانی لاہور کے تانگہ چلانے والے منگو کوچوان کے گرد گھومتی ہے جسے حالاتِ حاضرہ اور سیاست میں دلچسپی تھی۔ وہ اپنے تانگے میں بیٹھی سواریوں کی ان موضوعات پر گفتگو کو سنتا اور اپنی خواہش کے مطابق ان کی تشریح کرکے دوسرے کوچوانوں کو سناتا۔ تانگہ اڈہ میں موجود دوسرے کوچوان منگو کی سنی سنائی سیاسی بصیرت سے بہت متاثر تھے۔ اسی بنا پر منگو کوچوان استاد منگو کے نام سے مشہور تھا۔ منگو کوچوان کو اپنے وطن سے بہت پیار تھا۔ وہ ہندوستان پر راج کرنے والے انگریزوں کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ وہ اُن سے اپنی نفرت کا سبب یہ بتاتا تھا کہ انگریز اُس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کی نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ منگو کوچوان کو انگریزوں کے خلاف اندر ہی اندر جلنے کڑھنے اور اپنے ساتھیوں کے سامنے بھڑاس نکالنے کے علاوہ انگریزوں سے انتقام لینے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تھا۔ جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اُسے پتا چلا کہ ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ منٹو اپنی کہانی آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا۔ آخرکار مارچ کے 31دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جاکر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیرمعمولی طور پر مسرور تھی، وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔ اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا۔ منٹو کی یہ کہانی پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ منگو کوچوان نئے قانون کی آمد پر بہت پُرامید تھا اور اپنے اندر شہری حقوق اور آزادی کی بھرپور طاقت محسوس کررہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ آزادی کی اِس طاقت نے اُسے انگریز حکمرانوں کی ماتحتی سے نکال لیا ہے۔ وہ اب گوروں کے سامنے ذلیل کتا نہیں بلکہ عزت دار شہری ہے۔ اُس کے خیال میں نئے قانون کے بعد انگریز اُس پر حکم نہیں چلا سکیں گے اور نہ ہی کوئی ظلم ڈھا سکیں گے۔ نئے قانون کے نشے میں اِدھر اُدھر تانگہ چلاتا منگو کوچوان ایک سواری بٹھانے کے لئے رکتا ہے۔ اُسے قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سواری انگریز ہے۔ منٹو کہانی کا اختتام بے حد کلائمکس پر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسے پورا یقین ہو گیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور اس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی، اسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ استاد منگو نے پچھلے برس کی
لڑائی اور اب پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا کہاں جانا مانگٹا ہے؟ استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔ گورے نے جواب دیا منڈی۔ کرایہ پانچ روپے ہوگا۔ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔ یہ سن کر گورا حیران ہوگیا۔ وہ چلایا پانچ روپے۔۔ کیا تم۔۔۔؟ ہاں، ہاں، پانچ روپے۔ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کرگیا۔ کیوں، جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟ استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہوگیا۔ گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کرچکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیراثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کردیا۔ ششدر ومتحیر گورے نے اِدھر اُدھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جارہا تھا پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں، پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔ اب ہمارا راج ہے بچہ۔ لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو اُن دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانون ہے میاں، نیاقانون! اور بے چارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بیوقوفوں کے مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔ استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ نیا قانون نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ نیاقانون، نیا قانون، کیا بک رہے ہو؟ قانون وہی ہے پرانا اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ منٹو کا افسانہ ختم ہوگیا لیکن عام آدمی کی کہانی ختم نہ ہوئی کیونکہ 23برس قبل آج ہی کے دن 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی منتخب حکومت کو نکال کر اس لیے مارشل لاء لگایا کہ عوام کے مسائل حل ہوسکیں۔ عوام نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو نیا قانون سمجھا۔ تاہم آج 23برس بعد یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ نیا قانون بھی پرانا قانون ہی تھا جس میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یعنی عوام کہ ٹھہرے اجنبی اتنی تبدیلیوں کے بعد۔