ربِ کائنات نے اپنے محبوبؐ کو ایسی رفعت عطا کی ہے کہ ہر آنے والے دن، مہینے، سال اور قرن میں آپؐ کی شان، عزت، توقیر اور تذکرے میں ہر آن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ذکرِ حبیبؐ کہیں بھی رکنے والا نہیں، یہ سیلِ ذکر کہیں تھمنے والا نہیں …… اس ذکر سے اعراض اور اعتراض کرنے والا ضرور رک جائے گا اور روک دیا جائے گا، اس کا فکر ایک جگہ منجمد ہو کر رہ جائے گا۔ ذکرِ حبیبؐ خدا بلند سے بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح کائنات پھیل رہی ہے، یہ ذکر بھی پھیل رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمان و مکان کی تکوینی تشکیل اور پھیلاؤ اس ذکر سے منسلک ہے۔
ذکرِ نبیؐ دراصل اپنے ذاکر کے لیے بھی باعثِ رفعت و رافت ہے۔ ذکرِ حبیبِؐ خدا چار دانگِ عالم میں بلند ہو رہا ہے۔ کلمہ ہو یا آذان جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام اور ذکر ہے، اللہ کے حبیبؐ کا نام اور ذکر بھی موجود ہے۔ یہاں تک کہ عرشِ الٰہی بھی کلمہئ طیبہ سے مزین ہے…… اور کلمے میں اللہ اور اللہ کے رسول محمد مصطفیٰﷺ کا نامِ نامی درج ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کریم نے اپنی صفات رؤف اور رحیم بتائی ہیں اور قرآن ہی میں رسولِ کریمؐ کو بھی مومنین کے حق میں رؤف اور رحیم بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کا رنگ اختیار کرنے کا حکم ہے، اور اللہ کا ذاتی اور صفاتی رنگ کامل و اکمل انداز میں اللہ کے حبیبؐ کی ذاتِ والا صفات میں دیکھا اور دکھایا گیا۔ اللہ کریم نے اپنی اطاعت کو اپنے رسولؐ کی اطاعت سے مشروط کر دیا ہے۔ فرمایا گیا ”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ (جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، پس اسی نے اللہ کی اطاعت کی“ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے ساتھ محبت کو بھی اطاعت و اتباعِ رسولؐ سے مشروط کر رکھا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: آپؐ کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ خود تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے)۔ یہ حکم بھی قرآن میں ”قل“ کہہ کر زبانِ رسولؐ سے سنوایا گیا۔ گویا اللہ سے محبت کرنے کی تمنا ہو تو اس کے لیے اطاعتِ رسولؐ ضروری ہے، اپنے گناہوں سے مغفرت مطلوب ہو تو اس کے لیے اُس کے محبوبؐ کی اتباع لازم ہے، اللہ سے رحم کا طالب ہونا ہے تو اس کے لیے بھی اللہ کے حبیبؐ کی پیروی لازم ہے۔ طالبانِ الٰہی درحقیقت سالکانِ طریقِ سنّتِ نبویؐ ہوتے ہیں۔
”کشف المحجوب“ میں درج ہے (مفہومِ عبارتیوں ہے) کہ جنابِ بایزید بسطامیؒ کو جب روحانی عروج حاصل ہوا تو اُن کی روح ایک طویل اڑان کے بعد طائرِ قدس کی صورت میں عرشِ الٰہی کے کنگرے پر پہنچی، تو سرِ عرش آواز آئی، بایزید جاؤ، اگر ہمارا قرب چاہتے ہو تو ہمارے دوستؐ کے راستے پر چل کر آؤ۔
ثابت یہ ہوا کہ بلند سے بلند روحانی پرواز بھی اتباعِ رسولؐ کے بغیر ادھوری ہے…… بے سمت اور مہیب خلاؤں میں خود کو کھو دینے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اتباع محمدیؐ دراصل اتباعِ کردارِ محمدیؐ ہے۔ کردارِ محمدیؐ میں تمام تر اخلاقیات شامل ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا انسانی اخلاق موجود نہیں جس کی نظیر کردارِ محمدیؐ میں میسر نہ آئے۔ بقول مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اخلاق وہ راہِ عمل ہے جس پر چلتے ہوئے انسان پہلے مرحلے پر دوسروں
کے لیے بے ضرر ہو جاتا ہے اور پھر مخلوقِ خدا کے لیے منفعت بخش ہو جاتا ہے۔
ذکر ایک ایسا عمل ہے جو ذاکر کو اپنے مذکور کے قریب لے آتا ہے۔ فطری امر ہے کہ جس چیز کا ہم ذکر کرتے ہیں، ہماری فکر کا محور بھی وہی چیز ہوتی ہے۔ جو چیز ہماری فکر میں آ جاتی ہے وہ جلد یا بدیر ہمارے عمل میں بھی آ جاتی ہے۔ اخلاقِ محمدیؐ کا ذکر اور بار بار ذکر ہمیں اخلاق سے متعارف بھی کرائے گا اور اخلاقِ حسنہ سے متصف بھی کرے گا۔ ممکن ہے یہاں کوئی نکتہ دان یہ نکتہ اٹھائے کہ مسجد و منبر میں سیرت پر باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن باتیں کرنے والوں کے اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی کیوں نہیں دیکھنے میں آتی۔ دراصل ذکر سے مراد صرف محبت اور اخلاص کے ساتھ کیا گیا ذکر ہے…… کسی مقصد، مسلک یا پھر خود نمائی کے لیے کیا گیا ذکر قابلِ ذکر نہیں۔ ذکر کا مطلب دل و جان سے ذکر کرنا ہے…… اپنے قلب کی گہرائیوں سے ایسا ذکر کرنا اور سننا کہ آنکھ میں نمی اس پر گواہ ہو جائے۔ جب دل بھیگتا ہے تو آنکھ بھی بھیگ جاتی ہے۔ یہ گداز دلوں اور خالص نیتوں کے ساتھ کیا گیا ذکر ہے جو مذکور سے رابطے کا باعث بنتا ہے۔ جب رابطہ ہو گیا تو افکار و کردار میں ایک ربط بھی پیدا ہو گیا۔ یہی ربط اور ضبط اخلاق و کردار کے لیے درکار ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں امریکا میں مقیم ایک فیملی فرینڈ نے کیلیفورنیا سے ایک مجلس کی ویڈیو بھیجی۔ اس بارہ ربیع الاول کے موقع پر مقامی مسجد کے ہال میں میلاد کے لیے مسلمان جمع تھے اور مل کر ایک نعت پڑھ رہے تھے۔ پڑھنے والوں میں فلپائن، شام اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے، محفل کی صدارت شیخ عبداللہ میسرا کر رہے تھے۔ شیخ کا آبائی مذہب ہندومت تھا، وہ بانیِ دینِ مبینؐ کی بے مثل شخصیت کے بے مثال کردار سے یوں متاثر ہوئے کہ اسلام قبول کر لیا۔ محفل میں مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے اور کیفیت میں جھوم رہے تھے۔ یہ خوبصورت منظر زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ہمارے رسولِ رحمتؐ فی الواقع رحمت للعالمینؐ ہیں۔ جس طرح میں کہہ رہا ہوں ”ہمارے رسولؐ!“ اسی طرح ہر قوم، کلچر اور علاقے کا باشندہ یہ کہہ رہا ہے ”ہمارے رسولؐ“ سبحان اللہ ما اجملک ما احسنک! آپؐ اپنے اُمّتیوں کے دل میں رہتے ہیں …… بلا تخصصِ زمانہ، علاقہ اور زبان! آپؐ واقعی رحمت للعالمین ہیں …… سب انسانوں کے لیے رحمت…… سب جہانوں کے لیے رحمت!! کائناتی کلیہ ہے، رحم تخلیق سے پہلے ہے۔ جہاں تک رب العالمین کی ربوبیت کارفرما ہے، وہاں رحمت للعالمینؐ کی رحمت بھی جلوہ گر ہے…… آپؐ کا ذکر اور شہرہ ہر جہان میں برپا ہے…… جب کہا گیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں تو فرشتے کہاں کہاں تک ہیں …… اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں۔ مالک الملک نے اپنی صفتِ رحمت کو خود سے کبھی جدا نہیں کیا…… اپنی مجسم رحمت کو خدا خود سے جدا کیسے کرے گا!! سرکارِ دو عالمؐ اللہ کی مجسم رحمت ہیں۔ جہاں رحمت ہوتی وہاں غضب نہیں ہوتا کہ رحمت کو غضب پر سبقت حاصل ہے۔
شیخ عبداللہ میسرا نے اپنے زمانہ طالب علمی میں انگریزی میں ایک نعت کہی تھی، میرا یقین ہے کہ اس نعت کی برکت سے انہیں اسلام کی روشنی میسر آئی ہے۔ درحقیت اسلام کی تبلیغ کے لیے ہمیں کسی لمبے چوڑے فلسفے اور نظریے کی وضاحت و تشریح کی ضرورت نہیں، ہم فقط سیرتِ محمدیؐ عام کر دیں، اخلاق و کردارِ محمدیؐ دیکھ کر لوگ خود ہی اسلام کی طرف رجوع کریں گے۔ صاحبِ قرآن کے اخلاق کا تعارف کرانے کی دیر ہے کہ مخلوقِ خدا خود ہی اسلام اور قرآن تلاش کر لے گی۔ قارئین کے ذوقِ سلیم کی ضیافت کے لیے میں شیخ عبداللہ میسرا کی نعت کا اردو ترجمہ کرتا ہوں۔ انگریزی میں لکھی گئی یہ نعت اتنی کیف آور ہے کہ اردو میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
”آج میں آپؐ کی مقدس پیدائش کا دن منا رہا ہوں / اس دن نے زندگی کو اس کی قدر و قیمت سے آگاہ کیا ہے/ آج میں بیٹھ کر سوچتا ہوں / اس سے پہلے میں نے کبھی یہ گمان بھی نہ کیا تھا / کہ ایک ایسا پیار بھی ہو سکتا ہے/ کہ میں آپؐ کا ہوں اور آپؐ میرے ہیں / یعنی ایسا پیار جو بیوی بچوں سے بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے/ یہاں تک کہ ایک ماں کا اپنے بچے سے پیار بھی اس پیار کے مقابلے میں مدھم نظر آتا ہے/ یہ ہر قسم کی تخلیق شدہ چیز سے زیادہ ہے/ یہ درد اور خوشی لے کر آتا ہے / درد اس لیے کہ ہم آپؐ سے مل نہیں سکے/ اگر کبھی میں آنکھوں سے آپؐ کے سراپے کی ایک جھلک ہی دیکھ لیتا / میں جی بھر کر ایک کامل وجود کی زیارت کرتا/ آپؐ کی شفقت بھی محسوس کرتا جیسے ہم آج محسوس کرتے ہیں / لیکن اس سے تو میری تمنا مزید بے تاب ہو جاتی / صرف ایک نظر دیکھنے سے بھلا یہ کسک کیسے ختم ہو سکتی ہے/ لیکن اس درد اور کسک کے باوجود اس میں ایک راحت اور خوشی بھی ہے/ کیونکہ جب میں آپؐ کا نامِ نامی سنتا ہوں / تو میرا دل گداز ہو جاتا ہے، میرے (عقلی) تحفظات ختم ہو جاتے ہیں / میں آپؐ کے خیالوں میں ایسا کھو جاتا ہوں، گویا ڈوب ہی جاتا ہوں / اور ایسا کیوں نہ ہو، میں ایسا کیوں نہ سوچوں / آپؐ ہی نے ہمیں اللہ کا راستہ دکھایا ہے، یہاں تک کہ ہمیں ایک سرخوشی مل گئی/ آپؐ نے ہماری مدد کی اور روشنی کی طرف راہنمائی کی/ آپؐ ہی کی معرفت ہمیں معلوم ہوا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے/ آپؐ نے ہمارے لیے دن رات محنت و مشقت کی/ کیا اس مشقت کا صلہ میں کبھی اپنے پیار سے دے سکتا ہوں؟/ میں بس یہی کر سکتا ہوں کہ جب تک میری زندگی ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا رہوں کہ اس نے آپؐ کو ہمارے پاس بھیجا/ اے طرفہ شان والے اور نیکوں کے سردار!/ آپؐ پر اللہ کی رحمت اور برکت ہو/آپؐ کے اہلِ خاندان پر، آپؐ کے دوستوں پر اور آپؐ کے محبین پر!!“
شیخ عبداللہ میسرا اس نعتیہ کلام کے آخر میں ایک نوٹ لکھتے ہیں: ”یہ کلام میرے اس سفر کی ترجمانی کرتا ہے جس میں، میں رسولِ کریمؐ کی جستجو کرتے ہوئے اسلام تک پہنچا اور میں یہ کلام ہر سال ربیع الاول کے دن پوسٹ کرتا ہوں“۔
رفعتِ انسانی کا ذکرِ مصطفیﷺ اور عرفانِ مصطفیﷺ سے کیا تعلق ہے، مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔ آپؒ یہ شعر اکثر اپنی محافلِ گفتگو میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر وجد آفرین انداز میں پڑھا کرتے:
خاک کو رفعت ملے، بے بال و پَر کو پَر ملے
نعتِ پیمبرؐ سے جب عرفانِ پیمبرؐ ملے
سلطان کا ذکر بھی سلطان ہوتا ہے۔ یہ ذکرِ سلطانِ زمانہؐ ہے جو زمانے کی حدود و قیود سے انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔