کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ ہر طرح کے سیاسی بحران کا سامنا کریں گے اور آخری دن تک یہی کوشش ہو گی کہ پارٹی ڈسپلن قائم رہے کیونکہ ایسا نہیں ہوتا کہ دو لوگ فیصلہ کر کے بیٹھ جائیں کہ ہم نہیں مانتے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سیاسی معاملات میں نہ کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی ٹلتا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے نمبر گیم جلد آپ کے سامنے آ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری سے 3 ساڑھے 3 سال میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ تاریخ میں سینیٹ کے ایسے انتخابات نہیں ہوئے جو اس بار ہوئے ہیں اور ہم اپنی ساکھ کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس نہ دروازے ہیں نہ کھڑکیاں، یہ سیاسی ماحول ہے۔
جام کمال نے کہا کہ ہم ہر طرح کے سیاسی بحران کا سامنا کریں گے اور آخری دن تک یہی کوشش ہو گی کہ پارٹی ڈسپلن قائم رہے کیونکہ ایسا نہیں ہوتا کہ دو لوگ فیصلہ کر کے بیٹھ جائیں کہ ہم نہیں مانتے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں لچک ہوتی ہے اور 14 ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کیے ہیں اور دستخط کرنے والے ارکان کو اپنی موجودگی بھی ظاہر کرنی پڑے گی جس دن تحریک ایوان میں لائی جائے گی اس روز دیکھیں گے۔
اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی(بی اے پی) کے سینئر رہنما جان محمد جمالی نے پارلیمانی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا ناراض اراکین بھی اجلاس میں آجائیں گے، بات چیت کے ذریعے ناراض ارکان کو منانے کی کوشش کریں گے۔
20اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کیے جانے کا امکان اور ناراض 14 اراکین نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔
ذرائع کے مطابق ناراض ارکان میں بیشتر کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے جبکہ بی این پی عوامی اور پی ٹی آئی رکن بھی عدم اعتماد کرنے والوں میں شامل ہیں۔
تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مستعفی وزیر ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ 65 کے ایوان میں جام کمال کو صرف 24 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اسپیکر بلوچستان جلد اسمبلی اجلاس بلائیں اور تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔
اسد بلوچ نے کہا کہ ہم ناراض گروپ نہیں بلکہ متحدہ گروپ ہیں، اورسیاسی بحران سے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جبکہ جام کمال بازی ہار گئے ہیں۔
ایم پی اے نصیب اللّٰہ مری نے کہا کہ پی ٹی آئی بلوچستان میں پہلے دن سے اتحادی تھی اور اب بھی ہے جبکہ جام کمال سے گزارش ہے کہ وہ فوری استعفیٰ دیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بھی حزب اختلاف کے اراکین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی جسے گورنر سیکریٹریٹ کی جانب سے بعض تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر واپس کیا گیا تھا۔