اکبر الٰہ آبادی۔۔ ایک نیا بیانیہ

Dr Tehsin Feraqi, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

آج سے چالیس پینتالیس برس پہلے ہمارے ہاں مزاحمتی ادب کا ذکر بڑے تواتر سے رہتا تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی ایک عجیب ہنگامہ خیز ہانک پکار تھی۔ نعروں اور محض سطحی طبقاتی غیظ و غضب کے اظہار کو سچے اور اصلی ادب کا قائم مقام سمجھا جانے لگا تھا اور یہ بات بھلا دی گئی تھی کہ سچا ادب نئی علامتوں اور تازہ استعاروں کو نئے احوال کے پیش نظر وضع کرتا اور بقول عسکری، نئے جذباتی مرکبات پیدا کرتا ہے اور لوگوں کی جذباتی اور فکری دنیا میں ایسی علامتوں کی چولیں اس خوبی سے بٹھاتا ہے کہ وہ ہمارے لیے برگزیدہ اور برتر زندگی گزارنے کے جمالیاتی اشارے بن جاتی ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری سے یہی کام لیا اور مغربی استعمار کے بے پناہ سیلاب کے آگے اپنے توانا اور نادر اسلوبِ شعر کے وسیلے سے بند باندھنے کی کوشش کی۔ اس اسلوبِ شعر کو مسلم تہذیب و ثقافت کی روشن روایات نے خونِ تازہ مہیا کیا تھا۔ انہوں نے اس نام نہاد نعرہئ ترقی کی قلعی بڑی خوبی سے کھولی جو ماضی کی روشن روایتوں سے کٹ کر محض مادی اور حیوانی طرزِ زندگی ہی کو معراج سمجھنے لگتا ہے۔ یوں گویا اکبر نے مغربی طرزِ زیست کے بالمقابل ایک نیا بیانیہ وضع کیا اور برعظیم کے مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ابدی صداقت اور حقانیت کا نقش بٹھانا چاہا، ایک ایسا نقش جو سرسید کی فکر کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائیدار اور دوام کا حامل تھا۔ یہی نقش بعد ازاں اقبال کے ہاں صورِ اسرافیل کے حیات خیز شعری پیرائے میں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے۔ میں بڑی دیانت داری سے محسوس کرتا ہوں کہ اگر اکبر نہ ہوتے تو اقبال وہ نہ ہوتے جو وہ تھے۔ اقبال کے شعری کمالات اکبر سے بہ مراتب آگے تھے مگر ان کی فکری بنیادوں میں اکبر کا فیضان بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج صرف پاکستان ہی کا نہیں پورے برعظیم کا تعلیمی نظام تلپٹ، فرسودہ اور اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار کا قاتل اور تباہ کار نظر آتا ہے مگر اس کے متوقع خطرات کی جس بالغ نظری سے اکبر اور بعد ازاں اقبال نے پیش قیاسی کی تھی، وہ آسانی سے نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات بھی کچھ کم حیران کن نہیں کہ اکبر کے شعری حاصلات صرف برعظیم تک محدود نہیں رہے۔ اقبال سے پہلے اکبر کا مشرق اور ایشیا کی طرف متوجہ ہونا ان کی وسعتِ نظر کی ایک قوی برہان مہیا کرتا ہے۔ دیکھیے کس دردمندی سے کہتے ہیں:
ولوے لے کے نکلنے لگے کالج کے جواں 
شرمِ مشرق کے عدو، شیوہئ مغرب کے شہید
مسجدیں چھوڑ کے جا بیٹھے ہیں میخانوں میں 
 واہ کیا جوشِ ترقی ہے مسلمانوں میں 
ہوتا ہے نفخ، یورپین نان پاؤ سے
میں خوش ہوں ایشیا کے خیالی پلاؤ سے
رہی رات ایشیا غفلت میں سوتی
 نظر یورپ کی کام اپنا کیا کی
اب تو جاگو ایشیائی بھائیو
 نیند میں غفلت کی، صدیوں سو لیے
حکومت ایشیا پرقسمتِ مغرب میں ہے جب تک
 کمالات اس کے جو ہیں ہم کو حاصل ہو نہیں سکتے
کہو یہ رندانِ ایشیا سے کہ بزمِ عشرت کے ٹھاٹھ بدلیں 
اڑن کھٹولا ہے اب مسوں کا، گئی پری جان کی وہ ڈولی
 اس آخری شعر ہی کو دیکھ لیجیے۔ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اکبر تبدیلی کے مخالف نہیں، مؤیّد تھے مگر محض تبدیلی کے نہیں، مثبت، عمودی اور حیات خیز تبدیلی کے۔ اکبر کا بیانیہ موافقت سے نہیں، مبارزت اور صلابت سے زندگی پاتا ہے۔ ذرا دیکھیے علامتی پیرائے میں کیا کیا کچھ کہہ گئے ہیں:
تو خاک میں مل اور آگ میں جل، جب خشت بنے تب کام چلے
 ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ، تعمیر نہ کر
اشارہ چشمِ شوقِ مشرقی سے ہے یہ مغرب کا
جو قوت ہو تو بسم اللہ منہ تکنے کا کیا حاصل؟
حقیقت یہ ہے کہ دھیمے دھیمے انداز میں مبارز طلبی کی اکبر کی یہی تلقین اقبال کے ہاں ایک رجز کی شکل اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ رشوت، ترغیب، افتراق، تلقین اور عیاری کے حربوں سے سات سمندر پار سے آنے والے سامراج نے کس طرح شیخ کو یخ اور مومن کو موم کر دیا، اس کا لطیف رمزیہ انداز اکبر کے ہاں دیدنی اور خواندنی ہے:
سر تراشا ان کا، کاٹا ان کا پاؤں 
وہ ہوئے ٹھنڈے، گئے یہ بھی پگھل
شیخ کو یخ کر دیا، مومن کو موم
دونو کی حالت گئی آخر بدل
سوا سو ڈیڑھ سو برس پہلے اکبر نے ایسی ایسی باتیں اشاروں کنایوں میں اپنی شاعری میں کہہ ڈالیں، جنھیں ان کے اکثر معاصرین نے لائقِ توجہ ہی نہ جانا یا انھیں محض ہنسی مذاق سمجھا مگر جو آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہیں اور اکبر کی توانا اور دور رَس نگاہ کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ آج عالمگیر مشینی انقلاب نے ہمارے ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) کو جس طرح برباد کر کے رکھ دیا ہے، اردو میں اس کی جانب اولیں اشارے ہمیں اکبر (یا نثر میں ایک آدھ جگہ ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں) کی شاعری میں ملتے ہیں اور ہمیں حیرت سے دوچار کرتے ہیں۔ مشین نے صرف فضا ہی کو نہیں بلکہ پانی کو بھی آلودہ کر دیا ہے، صوتی اور آبی آلودگی اس سیارے کی مخلوقات کے لیے وبالِ جان بن گئی ہے۔ آبی حیات تیزی سے نابود یا ناکارہ ہو رہی ہے۔ کل ہی ہمارے ایک معاصر نے خبر دی ہے کہ دریائے سندھ میں کثرت سے پائی جانے والی ڈالفن تیزی سے نابود ہو رہی ہے۔ کاش ہم اس نام نہاد بے لگام صنعتی اور سائنسی ”ترقی“ کو کسی حد میں رکھتے۔ المیہ یہ ہے کہ نہایت خوبصورت پرندوں کی کئی نسلیں نایاب سے معدوم کی سرحد تک جا پہنچی ہیں۔ اس جمالیاتی آشوب کی طرف اکبر کے معنی خیز اشارے ملاحظہ کیجیے:
ابھی انجن گیا ہے اس طرف سے
کہے دیتی ہے تاریکی ہوا کی
نہیں سائنس واقف کارِ دیں سے
خدا باہر ہے حدِ دوربیں سے
مشینوں نے کیا نیکوں کو رخصت
کبوتر اڑ گئے انجن کی پِیں سے
اور اب اسی ضمن میں اکبر کا ایک فارسی شعر حافظ کی زمین میں بھی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں:
عبث اے بے ہنر قربِ مشینِ مغربی خواہی
کہ جز دُودے ترا حاصل نمی گردد ازیں ملہا
(اے بے ہنر! تو مغربی مشینوں کا قرب خواہ مخواہ حاصل کرنے کا خواہاں ہے حالانکہ ان مِلوں سے تجھے سوائے دھویں کے کچھ حاصل نہ ہو گا)۔ خیر اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ صرف ایک عالمی طاقت (ویسے برطانیہ کی نظر میں وہ اب سپر پاور نہیں رہی) کی کارگاہوں نے پچھلے اسی پچاسی برس میں دھڑا دھڑ اس کثرت سے ایٹمی اسلحہ اگل دیا ہے جس سے اس مظلوم سیارے کو پچاس ساٹھ بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اکبر نے تو ایک لحاظ سے آبی آلودگی کی طرف بھی بلیغ اشارے کر دیے تھے جب وہ پائپ سے ملنے والے پانی سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پیٹ چلتا ہے اور گویا پورے وجود میں ادھم مچاتا ہے! اکبر کے بعد اقبال ہی وہ دوسرے بے مثل اور دردمند دانشور ہیں جنھوں نے زیادہ موثر انداز میں انسانی معاشرت پر مشین کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور یہاں تک کہہ دیا:
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادیِ ایمن نہیں شایانِ تجلی
اور پھر یہ بھی کہا:
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھویں سے ہے سیہ پوش
یہاں ایک اور افسوسناک صورت حال کی طرف بھی توجہ دلانا بے محل نہ ہو گا۔ ہماری موجودہ دانشگاہیں جس تیزی سے بے جہت اور ہدف ناآشنا مراکز میں تبدیل ہو گئی ہیں، اس پر کچھ کہنا تحصیل حاصل کے مترادف ہے۔ کیا اکبر کا درج ذیل شعر ہماری انھی دانشگاہوں کی سمت ناآشنا صورت حال کا عکاس نہیں کہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے سڑکیں ناپتے پھرتے ہیں اور نوکریاں ایک ایک سے بہ زبانِ حال کہتی ہیں: گُم شو، دور باش!
ہیں عمل اچھے مگر دروازہئ جنت ہے بند
کر چکے ہیں پاس لیکن نوکری ملتی نہیں 
اور معاملہ صرف یہیں تک نہیں۔ کیا وطنِ عزیز میں بجلی کی قیمتوں میں روز بروز سفاکانہ اضافے اور بلبلا دینے والے ہوش ربا بل، آپ کو اکبر کا یہ شعر یاد نہیں دلاتے؟
لکھے گا کِلکِ حسرت دنیا کی ہسٹری میں 
اندھیر ہو رہا تھا بجلی کی روشنی میں 
اور یہ اندھیر صرف بجلی کی روشنی ہی نے نہیں مچایا۔ اسکے پیچھے اصل اندھیر ان سفاک بین الاقوامی اداروں نے مچا رکھا ہے جنھیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او کے خوشمنا ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ غلام قومیں اپنی بے لگام خواہشوں کی اسیر ہیں لہٰذا وہ قرضوں پر قرضے لیے جاتی ہیں اور افرادِ قوم کو غلام در غلام کی نامختتم زنجیروں میں جکڑے جا رہی ہیں۔ اکبر نے ہمیں سو سوا سو سال پہلے خبردار کرتے ہوئے کس دکھ سے کہا تھا:
اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کا
طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا