ایک سہانی صبح ایک شخص کی گاڑی اس کے گھر کے سامنے سے چوری ہوگئی۔بڑی اچنبھے کی بات تھی اور مسلسل حیرانی بھی اپنے پر کھولے روشن صبح کو اداس کیے جا رہی تھی۔
لیکن شام ڈھلتے ہی وہی گاڑی صاف ستھری حالت میں مکمل پالش کے ساتھ اسی جگہ پر کھڑی پائی گئی جہاں سے وہ چوری ہوئی تھی اور گاڑی کے اندر ایک خط پڑا تھا جس پر تحریر تھا کہ”میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں کہ مجھے یہ غیر مہذب اور غیر تہذیب یافتہ قدم اٹھانا پڑا ……مگر میں کیا کرتا……یہ قدم نہ اٹھاتا تو اور کیا کرتا میری بیوی کی حالت ڈلیوری کے باعث انتہائی تشویش ناک تھی اور تیزی سے بگڑ رہی تھی…… مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں اور کیسے اسے ہسپتال پہنچاوں۔کوئی پرسان حال نہیں تھا(جیسے موجودہ حکومت کا رویہ اپنی غریب اور بے روز گار عوام کے ساتھ ہے)
بس اس وجہ سے میں نے چوری جیسا گھناؤنا قدم اٹھایا آپ کی گاڑی چوری کی اور اپنی بیوی کو جیسے تیسے ممکن ہوا ہسپتال لے کر گیا مگر میں اپنے کئے پرانتہائی شرمندہ ہوں اور امید کرتا ہوں آپ مجھے میری اس حرکت پر معاف کر دیں گے۔ اللہ آپ کو بہت زیادہ اجر دے گا۔میں آپ کی صحت و سلامتی کے لیے اللہ کے حضور دعا گو ہوں۔اللہ کو ہمیشہ سلامت رکھے اور میری طرف سے آپ اور آپ کی فیملی کیلئے ایک عدد تحفہ ہے۔میں امید کرتا ہوں آپ قبول فرما کر مجھے عزت بخشیں گے۔ یہ آج رات کے فلم کے شو کی ٹکٹیں ہیں اور ساتھ میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی ہیں براہ مہربانی قبول کیجیے۔ یہ سب اس مدد کے بدلے میں جو آپ کی گاڑی کے ذریعے سے ہوئی ورنہ میری بیوی مر گئی ہوتی اور چاند سے بیٹا
اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی دم توڑ چکا ہوتا۔مجھے یہ قلق تمام عمر رہنا تھا۔بس یہ سب آپ کے توسط سے ممکن ہوا…… گاڑی کا مالک یہ سب پڑھ کرمسکرایاکہ بغیر محنت گاڑی بھی دھلی دھلائی مل گئی اور مفت میں رات کے شو کی ٹکٹیں بھی دستیاب ہو گئیں۔
رات کو جب فیملی فلم دیکھ کر واپس آئی تو ان کے گھر ڈکیتی کی واردات کی جا چکی تھی۔ پورا گھر سامان سے خالی کیا جا چکا تھا اور وہیں پر ایک خط پڑا ملا جس پر لکھا تھا ”امید ہے فلم پسند آئی ہوگی“۔ملک میں مہنگائی 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ ملک میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں پچھلے ماہ کے اختتام پر مہنگائی کی شرح مزید دو فیصد اضافے کے ساتھ 14 فیصد سے بھی بلند ہو گئی ہے۔ مہنگائی کی موجودہ شرح گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
ادارہئ شماریات کے مطابق جنوری میں بھی کھانے پینے کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جن میں گندم، آٹا، چینی، گڑ،کھانے کا تیل، پھل اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ادارہئ شماریات کے مطابق دیہی علاقوں میں شہروں کی نسبت مہنگائی کی شرح میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں ایل پی جی کی قیمت سات سال کی بلند ترین سطح پر دیکھی جا رہی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح 5.80 سے بڑھ کر 14.6 فیصد تک جا پہنچی ہے۔یاد رہے کہ ملک میں 2007-08کے دوران مہنگائی کی شرح 17 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو اب تک ملکی تاریخ میں افراطِ زر کی بلند ترین شرح قرار دی جاتی ہے۔واضح رہے کہ حکومت نے رواں سال مہنگائی کی شرح 11 سے 13 فیصد جب کہ عالمی مالیاتی ادارے نے 13 فی صد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ تاہم اس وقت یہ شرح ان دونوں اندازوں سے تجاوز کر چکی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے دو ماہ کے دوران بھی یہ شرح زیادہ رہنے کی امید ہے، جس کے بعد اس میں کمی کی امید نہیں کی جا سکتی۔مہنگائی کی وجہ روپے کی قیمت میں کمی ہے۔
کراچی میں مقیم ایک معاشی تجزیہ کار منیر افضل کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی گرانی میں اضافے کی بنیادی وجہ روپے کی قیمت کم ہونا تھا۔ اگرچہ کئی ماہ سے اب روپے کی قیمت میں استحکام تو نظر آتا ہے لیکن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ درحقیقت پاکستانی روپے کی 40 فیصد کے لگ بھگ گراوٹ کے آفٹرشاکس ہی ہیں۔منیر افضل کا کہنا تھا کہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ ان وجوہات پر رواں دو ماہ تک مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔اب اگر یہ مہنگائی اس تسلسل سے جاری رہی تو کوئی غریب روئے زمین پر نہیں رہے گا۔مڈل کلاس سے لے کر نچلا طبقہ اس مہنگائی کے ہاتھوں مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔بقول شوزیب کاشر
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
مہنگائی اس قدر ہے کہ مر جائے آدمی
ہمارے ساتھ بھی وہی ہوا ہے جو کار کے مالک کے ساتھ ہوا۔ قارئین امید ہے کہ آپ کو پچھلے 43 برس یعنی 1988 سے اب تک دکھائی جانے والی فلمیں پسند آئی ہوں گی۔
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
11:12 AM, 12 Oct, 2021