آج جب امریکی و اتحادی افواج افغانستان کو خالی کر کے واپس لوٹ چکی ہیں، کابل میں دوبارہ سے طالبان حکومت کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ سانحہ 9/11 سے متعلق سرکاری موقف پر آج بھی امریکیوں کی اکثریت یقین کرنے کیلئے تیار نہیں، میں بھی ان امریکیوں میں شامل ہوں۔
امریکی حکومت اور اس کے پالتو میڈیا کا دعویٰ کہ چند جنونی مسلمانوں نے اسامہ بن لادن کی ہدایت پر نیویارک کے ٹوئن ٹاورز اور پنٹاگون پر حملے کئے کیونکہ انہیں امریکی جمہوری حقوق، رواداری اور ہمارے مذہب سے نفرت تھی، حقائق کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ ان حملوں کے بعد سے آج تک میری سوچ یہ رہی ہے کہ ان حملوں میں اسامہ بن لادن اور طالبان دونوں میں سے کوئی بھی ملوث نہ تھا۔ اسامہ بن لادن نے بھلے ان حملوں پر پسندیدگی کا اظہار کیا، وہ مشتبہ افراد میں سرفہرست تھا۔ امریکی کمانڈوز نے اسامہ کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ہلاک کر ڈالا۔ طالبان رہنما ملا عمر اس بات ہمیشہ مصر رہا کہ اسامہ بن لادن کا حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال یہ ہے حملوں میں کون ملوث تھے؟ میری رائے میں حملوں کی فنڈنگ سعودی شہریوں نے کی جبکہ ان کی منصوبہ جرمنی یا سپین میں ہوئی۔ ہائی جیکر جن ریاستوں سے آئے وہ امریکا کی اتحادی یا اس کی زیر نگرانی ریاستیں ہیں۔ 19ہائی جیکروں میں 15سعودی، دو مصری، دو لبنانی تھے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حملوں کے خلاف قومی سطح پر ردعمل کے دوران سعودی عرب پر خاص توجہ نہ دی گئی، جو کہ امریکا کا اہم اتحادی بلکہ زیرنگرانی ریاست ہے، جبکہ ہائی جیکروں کی اکثریت سعودی شہری تھی اور حملوں کے فوری بعد ممتاز سعودیوں سے بھرا جہاز خاموشی کے ساتھ سی آئی اے نے امریکا سے نکال دیا تھا۔
مشرق وسطیٰ پر امریکی غلبے کے لیے سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر سعودیوں پر انگلی اٹھائی نہیں جا سکتی تھی۔ باقی سعودی شاہی خاندان کے ملوث ہونے کا امکان نہیں، جن کی سیاسی بقا کا انحصار آج بھی امریکی تحفظ پر ہے۔ تاہم سعودی شاہی خاندان تمام سعودیوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ سعودی عرب مختلف قبائل پر مختلف ایسا ملک ہے جن کی باہمی مخاصمت کا ریاض نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا، اپنی ایئر بیسوں پر موجود امریکی فورسز اور قبائلی فورس کے ذریعے انہیں کنٹرول میں رکھا۔ سعودی حکمران خاندان نے اس خوف سے کبھی باقاعدہ فوج تشکیل نہیں دی کہ کہیں مصر، عراق اور شام کی فوج کی طرح ان کا تختہ بھی ان کی اپنی فوج ہی نہ الٹ دے۔ سعودی عرب میں لگ بھگ 40 ہزار امریکی کام کرتے ہیں، وہاں تعینات پانچ ہزار امریکی فوجی اس کے علاوہ ہیں۔ سعودی عرب کی ٹیکنالوجی، بینکنگ، ریلوے سروس، ٹیلی کمیونیکیشنز، ایئرپورٹس اور فلائٹس، ملٹری امور، ٹی وی حتیٰ کہ ریڈیو تک غیر ملکی چلاتے ہیں۔ یہ سلسلہ 1920ء میں اس وقت شروع ہوا جب عرب خطہ میں برطانیہ کا تسلط قائم ہوا جس نے سعودی قبائل کو غلبہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سعودی عرب میں یمنی کمیونٹی معقول تعداد میں آباد ہے، بن لادن خاندان کا تعلق بنیادی طور پر یمن سے ہے۔ سعودی عرب میں شیعہ آبادی کا تناسب 20فیصد کے لگ بھگ ہے، دیگر مسلم فرقے بھی قلیل تعداد میں موجود ہیں۔ تاہم غالب اکثریت رجعت پسند وہابی فرقے کے پیروکاروں کی ہے، شاہی خاندان جس کا سرپرست ہے۔ وہابیوں کی نظر میں شیعہ مرتد اور بدعتی ہیں۔ اس سعودی فکر کے اثرات ان غیر ملکی 90 لاکھ کارکنوں پر بھی پڑے ہیں جو کہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں، ان کی اکثریت پاکستانیوں، بھارتیوں اور دیگر ایشیائی ملکوں کے شہریوں پر مشتمل ہے۔ اس پیچیدہ سعودی معاشرے میں ایسے گروہوں کی کوئی کمی نہیں جو کہ کٹر مغرب مخالف اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک پر امریکا کا فوجی قبضہ ہے اور امریکا ان کا استحصال بلکہ تمام غیر ملکی انہیں بُری طرح لوٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب مسلم دنیا کے لیے ایک مقدس سرزمین بھی ہے۔ آج کے سعودی عرب کو مغربی رنگ میں ڈھالا جا رہا ہے۔
1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کی کوریج کے دوران میری ملاقات ایک کٹر قوم پرست رہنما شیخ عبداللہ اعظم سے ہوئی جو کہ کیمونزم کا کٹر مخالف اور اسامہ بن لادن کا استاد اور مرشد تھا۔ گفتگو کے دوران عبداللہ اعظم نے کہا کہ افغانستان سے روسیوں کو نکال باہر کرنے میں جب ہمیں کامیابی ملے گی، تو اس کے بعد امریکیوں کو سعودی عرب سے نکال باہر کرنا ہماری منزل ہو گی۔ یہ بات اس لئے مجھے حیران کن لگی کیونکہ امریکا کے قابض قوت ہونے کا ذکر میں نے کبھی نہیں سنا تھا۔ عبداللہ اعظم کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں، وہ کچھ عرصہ بعد ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ وہ سوویت یونین کی طرح امریکا بھی ایک قابض طاقت سمجھتا تھا۔ ایسے سعودی قوم پرست گروپ جوکہ اپنے ملک پر غیر ملکی تسلط کے سخت مخالف ہیں، سانحہ 9/11 کی منصوبہ بندی اور فنڈنگ میں ان کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ مگر واشنگٹن کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے۔ کیونکہ اس سے سعودی عرب پر امریکی تسلط کڑی تنقید کا نشانہ بن سکتا تھا۔
سانحہ 9/11سے متعلق یہ حقیقت راز نہیں رہی کہ اسرائیلی حساس ادارے ان حملوں کے بارے میں جانتے تھے مگر اپنے سرپرست امریکا کو خبردار کرنے میں ناکام رہے۔ ویسے بھی سانحہ 9/11کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل ہی کو ہوا تھا۔
(بشکریہ ڈیلی ہف پوسٹ)