اسلام آباد: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے لائبریرین کے مطابق اِس میلے کا بنیادی مقصد نئی نسل کو کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کرنا اور علم دوست معاشرے کا قیام ہے۔ اِس تعلیمی میلے میں ملک کے 21۔بڑے بک سیلرز اور4پبلشرز کتابوں کے سٹالز لگائیں گے اور کتب رعایتی قیمت پر فروخت کریں گے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم صبح 10 بجے میلے کا افتتاح کریں گے۔ میلے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہہ میلے میں انٹری فری ہوگی اور میلے میں آنے والے مہمانوں کو ویلکم کیا جائے گا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ طلبہ اپنے والدین کے ساتھ میلے میں شرکت کریں گے۔ افتتاح کے موقع پر یونیورسٹی کے ڈینز، انتظامی اور تدریسی شعبوں کے صدور، سینئر اساتذہ، آفیسرز اور کارکن شرکت کریں گے۔
دنیا کا پہلا کتاب میلہ جرمنی کے فرینکفرٹ شہر میں مقامی کتب فروشوں نے 1454ء میں منعقد کیا۔ فرینکفرٹ اس شہر مینز کے قریب واقع ہے، جہاں جو ہانس گو ٹنبگرگ نے 1440ء اپنا پرنٹنگ پریس قائم کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جس مقام پر یہ میلہ لگایا گیا، وہاں اس سے قبل قلمی مسودات کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔
سترھویں صدی تک فرینکفرٹ کتاب میلہ دنیا کا اہم ترین کتاب میلہ رہا لیکن یوروپ کی نشاۃ ثانیہ نے وہاں ایک عظیم سیاسی اور ثقافتی انقلاب بپا کر دیا تھا جس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ جرمنی کے ایک اور شہر میں 1622ء میں ایک نہایت شاندار کتاب میلہ کا انعقاد کیا، جس کے سامنے فرینکفرٹ کتاب میلہ کی چمک ماند پڑ گئی۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم کے ماقبل سیاسی بحران اور خود جنگ نے پورے یوروپ کو الٹ پلٹ دیا، کتاب میلے تو کہاں ہوتے۔ پھر جب امن کا دور دورہ ہوا تو 1949ء میں فرینکفرٹ کتاب میلہ بھی دوبارہ شروع کیا گیا اور اس وقت سے آج تک یہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی کتاب میلہ ہے۔
فی الوقت دوسرا اہم ترین کتاب میلہ لندن میں ہوتا ہے، حالانکہ اس کا آغاز 1971ء میں لندن کے ہوٹل برنرز کے تہہ خانے سے ہوا تھا، جہاں ایک مقامی ناشر نے چند میزوں پر کتابیں سجا کر چھوٹے درجے کے ناشرین کو لائبریریوں اور عام قارئین کو کتابوں کی جانب ملتفت کرنے کا طریقہ سکھانے کی کوشش کی تھی، جو بعد کو ایک بڑی نمائش میں تبدیل ہوئی۔ اب کتاب میلوں کو ایک تجارتی طریقہ نمائش ہی نہیں بلکہ عوام کو کتاب اور پڑھنے کی طرف راغب کرنے کا طریقہ بھی سمجھا جانے لگا۔
پاکستان میں اب تقریباً ہر شہر میں تعلیمی ودیگر ادارے کتاب میلے منعقد کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ چند عالمی ادارے ادبی میلے کا انعقاد بھی کرواتے ہیں جہاں ملک اور بیرون ملک سے دانشور اور ادیب بھی مدعو کیے جاتے ہیں۔ تاہم اگر تاریخ میں جھانکیں تو کتاب کی اہمیت کا ادراک انسان کو جلد ہی ہو گیا تھا اور اشاعتِ علم میں کتاب کے کردار اور تاثیر نے کتاب کو وہ تقدس عطا کیا کہ آج بھی بلا تخصیص مذہب وعقیدہ لوگ عام کتاب کو بھی ہاتھ سے گر جانے پر بڑے احترام سے اٹھا کر چومتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں۔جبکہ موبائل فون ہاتھ سے گر جانے پر لوگ عام طور سے گالی دیتے سنے گئے ہیں۔
دنیا کی پہلی مطبوعہ کتاب بدھشٹ فلسفے پر مبنی ہے، جو لکڑی کے بلاک کے ذریعے 868 عیسوی میں چین کے تانگ دور حکومت میں طبع ہوئی اور آج بھی مکمل حالت میں برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ اگر گوٹنبرگ کے متحرک ٹائپ کو بھی پیمانہ بنایا جائے، تو بھی چین کو سبقت حاصل رہے گی کیونکہ وہاں 1041 عیسوی میں بائی شینگ نے اس ٹائپ سے چھپائی کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا اور اسی کو ترقی دے کر گوٹنبرگ نے اپنی مشین بنائی۔
پندرہویں صدی میں کتاب اپنی موجودہ کاغذی شکل میں آ چکی تھی اور ہر ترقی یافتہ زبان میں کتابوں کی طباعت، ترجمہ اور اشاعت کا کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ کتاب علم کے اکتساب کا ذریعہ بھی تھی اور تفریح طبع اور وقت گزاری کا مشغلہ بھی۔ علم دوستی عام ہوئی اور کتاب خریدنا، پڑھنا اور محفوظ رکھنا ایک مقبول شوق بنتا چلا گیا۔ کلاسیکی ادب کے ترجمے ہوئے، عوامی ادب تخلیق ہوئے اور زورو شور سے پڑھا جانے لگا۔ دوسری زبانوں کے ادب سے لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی گئی، جہاں دنیا بھر کا ادب جمع کرکے نمائش کے لیے پیش کیا جائے۔