جس طرح موجودہ حکمرانوں کا ماضی اور حال منافقتوں اور تضادات سے بھرا ہواہے اُسی طرح خان صاحب کا ماضی اور حال بھی اُن سے مختلف نہیں، دونوں میں فرق بس اتنا ہے موجودہ ”شریف حکمرانوں“نے ”تبدیلی“ کا چُورن نہیں بیچا، وہ اول وآخر ”سسٹم کو“ کے حامی ہیں، جِس سسٹم نے اُنہیں بے پناہ فائدے پہنچائے اُسے وہ کیونکر تبدیل کریں گے؟، نہ ہی کبھی اُنہوں نے اِس حوالے سے بلند وبانگ دعوےٰ کیے، خان صاحب کا معاملہ اور منافقت یہ ہے اِس غلیظ سسٹم سے فائدے بھی اُنہوں نے اُٹھائے اُسے تبدیل کرنے کے دعوے بھی کرتے رہے، لوگوں کو ایک نیا سسٹم لانے کی اُمید دلا کر پرانے غلیظ سسٹم کو مزید غلاظتوں سے بھر دیا، ……”تبدیلی“ یہ آئی تباہی پہلے سے زیادہ آگئی، …… جہاں تک موجودہ حکمرانوں کا تعلق ہے وہ تو آتے ہی غلیظ سسٹم بحال رکھنے کے لیے ہیں۔ البتہ وزیراعظم شہباز شریف کی ”بھاگ دوڑ“ کوئی رنگ لے آئی صرف معاشی بحالی کا کوئی معجزہ ہوگیا لوگوں کی زندگیوں میں کچھ نہ کچھ آسانیاں ضرور پیدا ہو جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی ”بھاگ دوڑ“ کا اکثر نتیجہ اِس دلچسپ واقعے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ ”ایک بندر جنگل سے کچھ روز کے لیے غائب ہوگیا، کافی عرصے بعد جب وہ واپس آیا اُس نے مشہور کردیا وہ ڈاکٹر بننے باہر گیا تھا۔ جنگل کی مخلوق نے اُس کی بات پر یقین کرلیا، ایک بارجنگل میں ایک خرگوش بیمار ہوگیا، جانور اُسے اُٹھا کر ”ڈاکٹر بندر“ کے پاس لے آئے۔ ڈاکٹر بندر نے اُسے چیک کیا، اُس کے اِردگرد چکر لگانے لگا، کچھ دیر بعد پھر چیک کیا اور بھاگ کر ایک دیوار پر چڑھ گیا، چند منٹوں بعد نیچے اُترکر پھر چیک کیا پھِر بھاگ کر ایک درخت کی ٹہنی پر جابیٹھا۔ اِس دوران حالت زیادہ بگڑنے سے خرگوش مر گیا، جانوروں نے ڈاکٹر بندر کو بُرابھلا کہنا شروع کردیا کہ تم نے صحیح علاج نہیں کیا جِس کی وجہ سے خرگوش مرگیا۔ ڈاکٹر بندر بولا ”میں نے آپ کے سامنے اتنی بھاگ دوڑ کی ہے اِس کے باوجود یہ مر گیا میرا کیا قصور ہے؟……ہماری دعا ہے وزیراعظم شہباز شریف کی ”بھاگ دوڑ“ کا نتیجہ اِس سے مختلف نکلے …… بھاگ دوڑ تو اپنے خان صاحب نے بھی بہت کی تھی مگر اُن کے بے شمار معاملات اور اقدامات سے یوں محسوس ہوتا تھا اُن کی ساری بھاگ دوڑ محض اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہے، ……ہیلتھ کارڈ، دسترخوان اور مستحقین کے لیے عارضی قیام گاہوں یامسافرخانوں جیسے اقدامات کو یقیناً خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے مگر یہ سب عارضی نوعیت کے کام تھے جو شہباز شریف بھی اپنی وزارت اعلیٰ کے دورمیں سستی روٹی ٹائپ سکیموں کے نام پر کرتے رہے۔ اصل کام سسٹم میں ایسی تبدیلی لانے کا ہوتا ہے جس کا فائدہ چند ہزار لوگوں کے بجائے ہر مستحق کو ہو۔ ……ڈنگ ٹپاؤ سکیموں نے ملک کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ ایک حکمران اپنی مرضی کی سکیمیں شروع کرتا ہے۔ دوسرا آکے اُنہیں ختم کرکے اپنی مرضی کی سکیمیں شروع کردیتا ہے، ……اِس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے جو سکیمیں خالصتاً عوام یا ملک کے مفاد میں ہیں وہ کوئی حکمران آکے ختم نہ کرے۔ عوامی سکیموں اور منصوبوں پر سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونی چاہیے۔ شکر ہے چودھری پرویز الٰہی کی سکیم 1122کو کسی نے ختم نہیں کیا …… شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اُنہوں نے مختلف امتحانات میں پوزیشن ہولڈر بچوں اور اُن کے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اُنہیں عزت سے نوازنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہونا چاہیے۔ پنجاب میں اب اُن کی حکومت نہیں، اُنہیں چاہیے یہ سلسلہ مرکز کے تعلیمی اداروں میں فوراً شروع کریں۔ اِس حوالے سے بڑی بڑی شاندار تقریبات منعقد ہوتی تھیں جن میں شہباز شریف خود شرکت کرتے تھے۔ پوزیشن ہولڈر بچوں اور اُن کے اساتذہ کوکیش پرائز دیئے جاتے تھے۔ ان تقریبات میں موجود بڑے بڑے اعلیٰ افسران اُٹھ کر اُن بچوں کے لیے تالیاں بجاتے۔ پوزیشن ہولڈر بچوں میں اکثر کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا تھا۔ شہباز شریف کم ازکم بچوں کی حد تک اِس راز سے ضرور واقف تھے ایک تھپکی یا شاباش کِسی کی زندگی بدلنے میں بعض اوقات کتنا اہم کردار ادا کرسکتی ہے، …… میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا شریف فیملی اقتدار میں آکر مختلف اقسام کی لالچوں سے دُور رہتی، کئی حواریوں سے یہ بہترین حکمران ثابت ہوسکتے تھے، پر کیا کیجئے مال بنانے کی ”لت“ ”جوئے“ جیسی ہوتی ہے جو قبر میں اُترنے تک نہیں جاتی۔ ……البتہ خان صاحب نے اتنا مال نہیں بنایا جتنا لوگوں کو اُلو بنایا۔ یہ ”سلسلہ عمرانیہ“ اب بھی زور وشور سے جاری وساری ہے، مختلف معاملات میں اُن کی منافقت عالمی سطح کی شہرت حاصل کرچکی ہے، اُن کی منافقت کی نئی قسط وزیر آباد میں اُن پر حملے کے بعد سامنے آئی۔ وہ ہمیشہ یہ فرماتے ہیں ”ہمارے ملک کو تباہ ہی اِسی چیز نے کیا ہے یہاں قانون کمزور کے لیے اورطاقتور کے لیے اورہے“…… اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں اُنہوں نے ہلکی سی کوشش بھی اِس خرابی کو دُور کرنے کے لیے نہیں کی، کیونکہ وہ خود اِس خرابی سے بھرپور فائدہ اُٹھارہے تھے، …… وہ یہ جواب دینا کبھی پسند نہیں کریں گے کِسی”کمزور“کو کِسی سڑک پر گولی لگ جائے شوکت خانم ہسپتال میں اُس کا علاج ہوسکتا ہے؟ کیا وہاں اُس کمزور کو وہ تمام سہولتیں میسر ہوسکتی ہیں جو خان صاحب کوہوئیں؟……کوئی کمزور یہ خواہش کرسکتا ہے گولی لگنے کے بعد وہ کِسی پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہواور سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم وہاں آکر اُس کا میڈیکل کرے؟۔کیا ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز یہ سہولت کِسی کمزور کو فراہم کرسکتے ہیں؟۔ کوئی کمزور یہ تصور کرسکتا ہے اُس کی ایف آئی آر اُس کا میڈیکل ہوئے بغیر فوراً درج کرلی جائے؟ اور اُس کی پسندیدہ دفعات کے تحت کرلی جائے؟…… خان صاحب کمزوروں کی بات تو بہت کرتے ہیں۔ کوئی کمزور، کوئی غریب کبھی خان صاحب کے اِردگرد دکھائی دیا؟۔ اپنے چاہنے والے کِسی کمزور، کِسی چھابڑی بردار کِسی ریڑھی والے، کِسی پھل یا سبزی فروش کو اپنے ساتھ کنٹینر پر اُنہوں نے کھڑے ہونے دیا؟ اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں کِسی کمزور کے ساتھ اُس کی دادرسی کے لیے کِسی تھانے کچہری میں وہ کبھی گئے؟۔……چلیں دوسرے بے شمارمعاملات میں تو ”طاقتوروں“ نے اُنہیں چلنے نہیں دیا، کمزوروں کے لیے تھانے کچہریوں کا نظام درست کرنے میں کیا رکاوٹ تھی؟ یہ نظام اُن کے اقتدار میں مزید خراب ہوگیا، تھانے کچہریوں میں کِسی کمزور کو جو انصاف سستا مل جاتا تھا اُن کے دورمیں انتہائی مہنگا ہوگیا، ……اُن کی خدمت گزارش بس اتنی سی ہے صرف اُسی ”تبدیلی“ کے دعوے کیا کریں جو اپنی ذات پر بھی وہ لاگوکرسکیں!!