اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، عالمی برادری صورتحال کی سنگینی کو تسلیم کرے۔
وزیر اعظم عمران خان سے ٹرائیکا پلس کے خصوصی نمائندگان برائے افغانستان نے ملاقات کی، وزیراعظم نے ٹرائیکا پلس میکنزم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ خطے کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے افغانستان میں امن و استحکام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ ایک جامع سیاسی تصفیے کی حمایت کی،انسانی حقوق کے احترام اور انسداد دہشت گردی کے پرعزم اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کےلیے بھی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری صورتحال کی سنگینی کو تسلیم کرے۔
گزشتہ روز پاکستان، چین ، روس اور امریکا نے اعتدال پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ کی حوصلہ افزائی کے لیے طالبان کے ساتھ عملی روابط جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے ہر سطح پر تعلیم تک رسائی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں تاکہ افغانستان کی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے۔ان زمہ داریوں میں بین الاقوامی قانون کے عالمی طور پر قبول شدہ اصولوں کا احترام اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں غیر ملکی شہریوں اور اداروں کے تحفظ اور جائز حقوق کے احترام پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اجلاس میں شریک امریکا ، چین، پاکستان اور روس کے خصوصی نمائندگان برائے افغانستان نے اپنی اس توقع کا اعادہ کیا کہ طالبان اپنے ہمسایوں، خطے کے دیگر ممالک اور باقی دنیا کے خلاف دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے کے اپنے عزم کو پورا کریں گے۔
طالبان پر زور دیا کہ وہ ساتھی افغانوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کریں جو تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرے اور افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کے لیے مساوی حقوق فراہم کرے۔
اجلاس نے افغانستان سے سفر کرنے کے خواہشمند تمام افراد کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی اجازت دینے کے طالبان کے عزم کا خیرمقدم کیا گیا اور زور دیا گیا کے سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں ایسے ہوائی اڈے قائیم کیے جائیں جو تجارتی ہوائی ٹریفک کو قبول کر سکیں۔