بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ یہ جملہ آپ نے بھی نہ جانے کتنی بار پڑھا اور سنا ہو گا۔اسی لئے زندہ قومیں اپنے مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔ ان کی صحت، ان کی نشونما اور ان کی تعلیم کو اپنے مستقبل کی تعمیر کا درجہ دیتے ہوئے یہ اقوام، محض رسمی قانون سازی کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں لازمی تعلیم کا قانون ہوتے ہوئے بھی اڑھائی کروڑ بچے، جنہیں سکولوں میں ہونا چاہیے، سکولوں سے باہر پڑے ہیں۔ کسی ادارے کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں کہ یہ بچے کیا کر رہے ہیں اور سکولوں میں ان کے نہ جانے کی وجوہات کیا ہیں؟ مہذب ترقی یافتہ ممالک میں ریاست بچے کی پیدائش ہی سے اس کا مکمل ریکارڈ رکھتی ہے۔ جوں ہی بچہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتا ہے، والدین کو اطلاع کر دی جاتی ہے ۔ سرکاری اہلکار خودگھر پہنچ جاتے اور بچے کو سکول میں داخلہ دلاتے ہیں۔ جہاں جہاں قانون موجود ہے وہاں وہاں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کوتاہی برتنے والے والدین کو سزا بھی ملتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کروڑوں بچے اور نوجوان جو دراصل ہمارا مستقبل ہیں، کوڑے دان میں پھینک دئیے گئے ہیں۔
5 سے 16 سال کی عمر کے یہ بچے کیوں سکول نہیں جا پا رہے ؟کیا اس کی بنیادی وجہ غربت اور پسماندگی ہے ؟ ہمارے ہاں پرائمری بلکہ ہائی سکول سطح تک کی تعلیم مفت ہے۔ ریاستی سکولوں میں برائے نام فیس لی جاتی ہے۔ یہ فیس معاف بھی کر دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود والدین بچے کو سکول کیوں نہیں بھیج رہے؟ کیا وہ بچوں کی کتابوں ، کپڑوں، وردی، جوتوں، وغیرہ کا خرچ نہیں اٹھا سکتے؟ کیا غریب اور نادار والدین کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے بچے کوئی مزدوری کریں۔ کسی کے گھر کام کاج کریں، اینٹوں کے بھٹوں پر والدین کا ہاتھ بٹائیں، کسی ورکشاپ پر بیٹھ کر کام کریں، کسی ریستوران می "چھوٹا " بن کر چند ٹکے کمائیں یا ایسے ہی کسی کام کاج کے زریعے گھر والوں کی مدد کریں۔ ان سوالوں کا جواب تلا ش کرنے، تحقیق کے ذریعے قوم کے مستقبل کو خاک میں رلنے کے اسباب و محرکات کا جائزہ لینے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ ہماری این۔جی۔اوز بھی اپنے اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ حکومتوں کو اپنی سیاسی ترجیحات سے آگے دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ اگر یہاں واقعی کسی کو قوم کے مستقبل سے دلچسپی ہو تو پہلے ان اڑھائی کروڑ بچوں اور نوجوانوں کو ایک ہنگامی منصوبے کے ذریعے تعلیم یا ہنر سیکھنے کے دائرے میں لایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سختی کے ساتھ انتظام کیا جائے کہ پانچ سال کی عمر کو پہنچ جانے والا کوئی بچہ آئندہ سکول سے باہر نہ رہے۔ اڑھائی کروڑ بچوں کو تعلیم یا ہنر کی طرف لانے کی منصوبہ بندی کو جانے دیجئے ، یہاں تو ہر سال اس تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ سولہ سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد ناخواندہ بچہ، نوجوان کی صف میں چلا جاتا اور بچوں کی گنتی شمار میں نہیں آتا لیکن جتنے بچے سولہ سال کی عمر کو پہنچ کر اس دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں، اتنے ہی 5 سال کے بچے اس دائرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ صورتحال یہی رہی تو اس تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔
اب آتے ہیں اس انتہائی سنگین معاملے کی طرف کہ ہمارے ہاں جرائم میں ملوث بچوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ بچے صرف چھوٹے موٹے سٹریٹ کرائمز ہی میں ملوث نہیں بلکہ راہزنی، ڈاکے، لوٹ مار اور بڑی بڑی چوریوں کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ کچھ نے دہشت گردوں کی معاونت کو پیشہ بنا لیاہے۔ کچھ نے اے۔ٹی۔ایم توڑنے کے ہنر میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ سو کسی کا موبائیل چھین لینا، کسی کی جیب کاٹ لینا، یا چھوٹی موٹی چوری کر لینا اب پرانی باتیں ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہر ان بچوں اور نوجوانوں کے جرائم کی زد میں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ گوجوانوالہ میں نو عمر لڑکوں کا ایک تیرہ رکنی گروہ پکڑا گیا ہے جو گاڑیاں چوری کرنے کی درجنوں وارداتوں میں ملوث تھا۔ لاہور پولیس کے مطابق گزشتہ سال ، یعنی 2020 میں گلیوں میں لوٹ مار یعنی سٹریٹ کرائمز کی تین ہزار کے لگ بھگ وارداتیں ہوئیں جن میں سے ایک تہائی وارداتوں میں نوعمر لڑکے ملوث پائے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سٹریٹ کرائمز میں ملوث بچوں کی سب سے بڑی تعداد گیارہ سے بارہ سال کی عمر کی ہے۔ ایک بڑی تعداد نہ صرف خود منشیات کی عادی ہو چکی ہے بلکہ منشیات فروشی کا دھندا بھی کرتی ہے۔
میں نے پہلے بھی کسی کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان کا شمار کثیر القوانین (highly legislated) ممالک میں ہوتا ہے۔ ہم نے نہ جانے کیسے کیسے قوانین بنا رکھے ہیں لیکن ان پر موثر عمل درآمد کا خانہ خالی ہے۔ 2000 میں بچوں کو انصاف فراہم کرنے کا ایک آرڈیننس جاری ہوا۔ 2002 میں اسے باضابطہ قانون کا درجہ حاصل ہو گیااور وہ پورے ملک میں نافذ ہو گیا۔ قانون کا مقصد 18 سال سے کم عمر کے جرائم میں ملوث بچوں کی اصلاح اور ان کی ذہنی تربیت پر زور دینا ہے تاکہ یہ بچے جیلوں میں جا کر ہمیشہ کے لئے جرائم پیشہ نہ ہو جائیں۔ کہا گیا ہے کہ قید کے دوران انہیں عادی مجرموں سے الگ تھلگ رکھا جائے گا۔ ان کی قید کے دوران ان کے لئے خصوصی انتظامات پر زور دیا گیا ہے۔نو عمر ملزموں کے لئے خصوصی عدالتوں کا اہتمام بھی کیا گیا ۔قانون کہتا ہے کہ بچوں کی ضمانتوں میں نرم رویہ رکھا جائے۔ ناقابل ضمانت جرم ہو تو بچے کو فورا عدالت میں پیش کیا جائے گا اور عدالت ضروری سمجھے تو اسے اصلاحی مراکز بھیج دے گی۔ قید کے دوران ان سے کوئی مشقت نہیں لی جائے گی۔ غرض جرائم میں ملوث بچوں کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔
لیکن کیا عملا بھی یہی کچھ ہو رہا ہے؟ یقینا نہیں۔ اس وقت پاکستان بھر کی جیلوں میں قید بچوں کی تعداد 1365 بتائی جاتی ہے۔ پنجاب کے 540 ، خیبر پختون خواہ کے 510 ، سندھ کے 260 ، اور بلوچستان کے 55 بچے مختلف جیلوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔ کسی کے پاس وقت ہو تو وہ جیلوں کا معائنہ کر کے دیکھے کہ 2002کے قانون کا ان بچوں پر کتنا اطلاق ہو رہا ہے اور ان کی اصلاح کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت مجرم بچوں کی اصلاح کے حوالے سے فیصل آباد، بہاولپور، کراچی، سکھر اور لاڑکانہ میں اصلاحی مراکز یا ادارے کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام مراکز بھی محکمہ جیل خانہ جات کے زیر اہتمام ہیں۔ عملا ان بچوں کی اصلاح کے بجائے یہاں بھی انہیں مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یا یہ بچے مختلف اہلکاروں کے گھروں میں برتن مانجتے اور گھر کے کام کاج کرتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ یہ مراکز بھی صرف لڑکوں کے لئے ہیں۔ جرائم میں ملوث بچیوں پر کیا گزر رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔
سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ کسی کو پاکستان کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں حالانکہ سب اٹھتے بیٹھتے یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ شاید کسی کی نظر میں سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جہاں 40 فی صد سے زیاہ لوگ دیکھتے دیکھتے غربت کی لکیر سے نیچے لڑھک گئے ہوں اور فاقہ کشی سے مجبور خود کشیاں کرتے عوام کی کسی کو فکر نہیں، وہاں ان بچوں کی کیا حیثیت ہے؟ جس قوم کو اپنے حال کی پرواہ نہیں اسے مستقبل کی کیا فکر؟