علامہ اقبالؒ نے قرآن مجیدکوصرف مذہبی کتاب کی حیثیت سے نہیں لیابلکہ اسے نظام حیات کے طورپر پیش کیا۔ قرآن اورعشق رسولؐ ہی کلام اقبال کاخاصہ ہیں۔ قرآن مجیدجیسی کتاب کو تھوڑی کوشش سے زیادہ سے زیادہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اقبالؒ کے ہرشعرکے ساتھ ذہن میں قرآنی آیات تازہ ہوجاتی ہیں۔کلام اقبال ؒ کی اصل روح قرآن مجید ہی ہے۔
اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب میں ڈاکٹرضمیراخترخان نے کہاکہ اللہ تعالی نے عربی کو عالمی حیثیت دی لیکن ہمارے نظام تعلیم میں یہ اجنبی زبان ہی رہی۔جس طرح اقبالؒ نے قرآن مجیدکوعربی زبان میں براہ راست سمجھااسی طرح آج کی نسل کوبھی ترجمے کے بجائے عربی میں براہ راست سمجھناہوگا۔
علامہ اقبالؒ بچپن ہی سے نماز فجر کے بعد علی الصبح قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ با ادب بیٹھ جاتے۔ خوش الحان تھے۔ ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت پر غور کرتے۔ ٹھہر ٹھہر کر آگے بڑھتے تاکہ ہر لفظ اور ہر آیت کے معنی ذہن نشین ہو جائیں۔ قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ ہی ان کا محبوب ترین مشغلہ اور دل و دماغ کا سرمایہ تھا۔ قرآن مجید سے ان کی محبت کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، جیسا بھی انہماک، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ہوں، ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دورانِ مطالعہ اکثر رقت طاری ہوجاتی۔ کوئی بھی گفتگو کرتے، تحریر ہوتی یا تقریر، جہاں کوئی بات کہنے کی ہوتی ان کا ذہن بے اختیار ارشادات قرآنی کی طرف منتقل ہوجاتا۔ جب بھی ان کے ذہن میں کوئی بات آتی، کوئی حقیقت سامنے آتی، یا کوئی فکر ذہن میں ابھرتی تو قرآن مجید سے اس کی وضاحت ہوجاتی۔
اقبالؒ کے سرمایہ فکر میں قرآن مجید ہی کی روح کارفرماہے۔ علامہ اقبال ایک روز کہنے لگے فلسفہ ہویا سائنس، زندگی او ر اس کے مسائل۔ کوئی عقدہ حل ہوتا نظر نہ آئے تو قرآن مجید سے رجوع کرتاہوں۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ ایک روز میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ گیا تو فرمایا یہ سامنے کی الماری میں قرآن مجید رکھا ہے۔ قرآن مجید اٹھالاؤ۔ میں اپنے دل میں سمجھ رہاتھا کہ مجھ سے شاید فلسفہ کی بعض کتابوں کی ورق گردانی کے لیے کہاجائے گا۔ میں قرآن مجید لے آیا تو ارشاد ہوا۔ سورۃحشر کا آخری رکوع نقل کرو۔ رکوع نقل کرچکا تو پھر چند ایک عنوانات کے ماتحت یکے بعد دیگرے مختصراً شذرات لکھواتے گئے۔ سید نذیر نیازی علامہ اقبال کی ایک گفتگو کے متعلق لکھتے ہیں: ایک روز گفتگو ہورہی تھی کہ اس عہد نے جسے سائنس کا عہد کہا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں بڑی بدگمانیاں پیدا کر دی ہیں بلکہ اس کے خلاف ایک معاندانہ روش اختیار کر رکھی ہے۔ علامہ نے فرمایا : یہ اس لیے کہ لوگ علم و حکمت کی صحیح روح سے واقف ہیں اور نہ قرآن مجید سے کہ اس کی تعلیمات کیا ہیں؟ ارشاد ہوا : اسلام خلاص کائنات ہے اور یہی رائے ہمارے علماء کی تھی مگر حقیقت یہ جب ہی منکشف ہوگی جب ہم قرآ ن مجید میں تدبر او ر تفکر سے کام لیں گے۔
علامہ اقبالؒ اپنی زندگی میں کلامِ الٰہی سے جس قدر اثر انداز ہوئے، ا تنا وہ کسی شخصیت سے متاثر نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال جس طرح خود قرآن سے محبت کرتے تھے اور اس میں غور وفکر کرتے تھے، آ پ مسلمانوں سے بھی یہی خواہش رکھتے تھے کہ مسلمانانِ ہند قرآن کی تلاوت اور اس کی تفہیم کو اپنے اوپر لازمی کریں۔ آپ کی خواہش بھی یہی تھی کہ مسلمان بھی قرآن سے اپنا حقیقی تعلق قائم کرلیں۔
علامہ اقبالؒ کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ قرآن کا علم مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ وہ دلی طور پر خواہاں تھے کہ قرآنی تعلیمات کا دور دورہ ہواور لوگ اسوہ حسنہ اور سنت رسول ؐ کا اتباع کریں اسی ضمن میں آپ اکثر عوام الناس کو تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ابو محمد مصلح کو تحریر فرمایا: ’’اس زمانہ میں قرآن کا علم ہندوستان میں مفقود ہوتا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں نئی زندگی پیداکی جائے۔‘‘ علامہ اقبال ؒ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی قوت اپنے نفس کی خاطر صرف کریں۔ قرآن مجید کو تو آپ بڑا ہی مظلوم سمجھتے تھے۔ کیونکہ دنیادار اور خود غرض لوگ، جنہیں اور کوئی کام نہیں ملتا، وہ اس کے ترجمے یا تفسیر کا ٹھیکہ لے لیتے ہیں۔ یہ بات علامہ اقبال ؒ کے لئے بڑی تکلیف دہ تھی۔
علامہ اقبالؒ کا پیغام ہی یہی تھا کہ مسلمان سمجھ لیں کہ ان کی زندگی قرآن مجید سے ہے۔ قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر سے کام لیں۔ اس کی تعلیمات پر عمل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن سے رشتہ قائم رکھا اور اس میں تدبر وتفکر کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا، اس وقت تک ان کا علمی و اخلاقی عروج قائم رہا۔ ان کازمانہ گزشتہ زمانوں سے اعلیٰ و نمایاں رہا۔ ان کے زمانہ میں علمی و تحقیقی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ حال یہ تھا کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی دور دراز علاقوں سے سفر کرکے مسلمانوں کے علاقوں اور بستیوں میں آ کر زانوئے تلمذ تہہ کیا کرتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں نے قرآن سے تعلق ختم کر لیا اس سے دوری حاصل کی تو وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر دربدر پھرتے رہے۔ اقبال نے کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ایک اور جگہ اقبال امت مسلمہ کے قرآن سے تعلق کی دوری کو بیان کرتے ہوئے افسر دہ انداز میں کہتے ہیں:
جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں