دوستو،خلیل جبران کہتا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔جون ایلیا کاکہنا ہے کہ ۔۔ ’’اگر میں اپنے جھوٹ کے ساتھ خوش ہوں تو تم مجھ پر اپنا سچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو ؟‘‘۔۔ ویسے تو نظریں چرا کر بولا جانے والا سچ بھی ایک مستند جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔۔۔جھوٹ کی اس پرفریب دنیا میں جہاں ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔۔ جہاں جھوٹ دکھتا ہے اور جھوٹ ہی بکتا ہے۔۔
جھوٹ بولنے کی تربیت توہمیں ہمارے والدین بچپن سے ہی دینا شروع کر دیتے ہیں۔۔ جب گھر پر پپا کا کوئی دوست آجائے اور پپا کا موڈ نہ ہو تو وہ ہم سے کہلوادیتے ہیں کہ جاؤ کہہ دو۔۔ پپا گھر پر نہیں ہیں۔۔ جب پڑوس سے بچی گھر میں پیاز یا کوئی اور چیز مانگنے آجاتی ہے تو مما کہتی ہیں جاؤ جا کر منع کردو کہ ہمارے گھر بھی ختم ہوگئی۔۔گھر پر مہمان آجائیں اور انواع و اقسام کی ڈشز سے دسترخوان بھرا ہوا ہو۔ ۔ جنہیں دیکھ دیکھ کر ہماری رال ٹپک رہی ہو اور پیٹ میں چوہے چاروں قل زوروشور سے پڑھ رہے ہوں تب بھی مما ہی طرف سے ہدایت ہوتی ہے کہ کہہ دینا ابھی کھا کے بیٹھے ہیں۔۔ جھوٹ کی ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن کی ٹریننگ دے کر ہمیں ہمارے والدین ’’کمانڈوز‘‘ بنادیتے ہیں۔پھرسچائی کی توقع کیسی؟۔بچپن سے ہماری بنیادوں میں جب جھوٹ کی آبیاری کی جاتی ہے تو پھر اس کی عادت سی پڑجاتی ہے۔ کہتے ہیں عادتیں وقت کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی ہیں پھر بوڑھی ہوکرانسان کے ساتھ ہی دم توڑ دیتی ہیں۔۔۔آج اگر ہم اپنے آس پاس نظریں دوڑائیں تو ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ملے گا۔۔قصاب پریشر والا گوشت بیچ رہا ہے۔۔سبزی والا جب اپنی سبزیوں پر پانی چھڑکتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی سبزیوں کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہا ہے بلکہ اس طرح وہ ان کا وزن بڑھا رہا ہے۔۔تربوز، خربوزے ، سردا اور گرما میں انجکشن کے ذریعے میٹھا ڈالا جاتاہے۔۔چیری پر گلابی رنگ پھیرا جاتا ہے۔۔دودھ میں جتنا پانی نظر آتا ہے اتنا تو نلکوں میں بھی نہیں آتا۔۔پہلے لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر کی جاتی تھی اب فروٹ والوں کو اپنے کیلے اور آم کیمیکل سے پیلے کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ایف آئی آر میں بھی ملزمان کے نام’ نامعلوم‘ ہی لکھے جاتے ہیں، اسی لئے اکثر جرم کی سزا کسی کو بھی نہیں ملتی۔۔
کھانے پینے کے معاملات ہوں یا جینے کے عام حالات،ادائیں ہوں یا وفائیں، پیار محبت ہو یا حیل حجت،موج مستی ہو یا نااہلی و سستی۔۔۔۔ہر جگہ آپ کو جھوٹ ہی جھوٹ نظر آئے گا۔۔یہاں سب سے بڑا جھوٹ تو یہ ہے کہ ہم ایٹمی ملک ہیں۔۔۔۔ کیا کسی ایٹمی ملک میں لوگ بجلی کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ ایک اور جھوٹ بڑے تواتر اور ڈھٹائی سے بولا جاتاہے کہ۔۔ ہم سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔۔قیام پاکستان کے بعد سے طعام پاکستان کا سلسلہ جاری ہے۔۔ حیرت ہے یہ کیسے پاکستانی ہیں جو ٹریفک سگنل پر ایک منٹ بھی رکنا اپنی توہین سمجھتے ہیں؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جوبسوں میں خواتین کی سیٹوں پر قبضہ کرلیتے ہیں؟ ۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو جعلی دوائیاں بیچتے ہیں؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو اپنے نجی ہسپتال میں مریض کو داخل کرنے سے پہلے ایک موٹی رقم جمع کرانے کا حکم دیتے ہیں؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جنہوں نے تعلیم کو بزنس بنالیا؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو سڑک پر زخمیوں کو تڑپتا دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو عید میلاد النبی ﷺ پر بجلی چوری کرتے ہیں؟۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو آج تک سچے اور پکے پاکستانی نہیں بن سکے؟۔ ایک کڑواکسیلا جھوٹ ہمیں ہر قومی سانحے پر سنایا جاتا ہے۔۔ ملزمان کی گرفتاری کیلئے کمیٹی بنادی گئی۔۔ دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔۔ کسی کو اس ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔ اب کوئی ان سے ذرا یہ پوچھے۔۔ کیا دہشت گرد اپنی کارروائی سے پہلے آپ کو چٹھی لکھیں گے کہ جناب۔۔۔ لاہور کے علاقے تاج پورہ میں ایک عدد بم پھوڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے عین نوازش ہو گی۔۔ آپ کا تابعدار۔۔ دہشت گرد کمانڈر۔
ہمارے پیارے دوست جب ٹیکسی میں سفر کررہے تھے تو یکایک ڈرائیور نے ٹیکسی روک دی اور حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا: ’’آپ تو مسلمان لگتا ہے صیب!‘‘ہاں، ہاں وہ جلدی سے بولے، ٹی وی چینل پر کام ضرور کرتے ہیں، چہرے پر داڑھی نہیں ہے، جھوٹ بھی خوب بولتے ہیں، مگر ہیں مسلمان۔ سچ مچ آپ مسلمان ہو؟ ہاں بھائی! خیر سگالی کے طور پر انڈین فلمیں دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے آنکھ دیر سے کھلتی ہے اور صبح کی نماز رہ جاتی ہے، باقی نمازیں کام کی زیادتی کی وجہ سے چھوٹ جاتی ہیں، لیکن بھائی! عید کی نماز پابندی سے پڑھتے ہیں اور آج کا مسلمان ایسا ہی ہے۔ایک نوجوان نے ہنی مون منانے کے دوران اپنی بیوی سے کہا اب جب کہ ہماری شادی ہو گئی ہے میں چاہتا ہوں تمہیں تمہارے نقائص سے آگاہ کر دوں بیوی نے جواب دیا تھا میں اپنے نقائص سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اگر مجھ میں وہ نہ ہوتے تو مجھے آپ سے بہتر شوہر مل سکتا تھا۔۔
کچھ الفاظ ہماری زندگیوں میں ایسے شامل ہوگئے ہیں جنہیں سن کر کر دل و دماغ جھوٹ جھوٹ کی گردان کرنے لگتا ہے۔۔مثال کے طور پرگڈ گورننس، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ،تعلیم فری۔علاج فری۔بیروزگاری کا خاتمہ۔قانون کی عمل داری۔ فرض شناس پولیس۔خالص اشیا کی فروخت۔۔ ویسے اب اس معاشرے میں خالص تو صرف ماں کا پیار ہی ہے۔۔ مگر اسے بھی ٹی وی کمرشل نے خراب کرنے کی کوشش کی۔جس ملک میں یوٹیوب کو زخموں پر لگائی جانے والی گھوڑے کی ٹیوب سمجھ لی جائے اور اسے سائیڈ پر رکھ کر بھلادی جائے۔۔ جہاں جوڈوکراٹے کے بغیر ککس بیکس عام ہوں۔۔ جہاں فائلوں کے نیچے نوٹوں کے پہیے لگتے ہوں۔۔ جہاں پولیس کے پاس جانے سے مدعی بھی خوفزدہ ہو۔۔جہاں کرکٹ گراؤنڈ کے بجائے سڑکوں پر کھیلی جائے۔۔جہاں لوگ فٹ پاتھوں کے بجائے سڑکوں پر چلنے پر مجبور ہوں ۔۔جہاں ٹی وی کے بلیٹن گیت مالا بن جائیں۔۔جہاں سب سے زیادہ طلاقیں لومیرج کرنے والوں کے درمیان ہوں۔۔جہاں بناسپتی گھی میں ایسنس ڈال کر اسے اصلی گھی کے طور پربیچاجائے۔۔جہاں پانی۔۔ ڈیزل اور پٹرول کی گاڑیوں پر رکھ کرفروخت کیا جائے۔۔جہاں جس کی مرضی سڑک کو کھود کر رکھ دے۔۔جہاں لوگ عرصے تک کھوتے کا گوشت کھاتے ہوں۔۔ جہاں گیس چولہوں کے بجائے نلکوں سے آتی ہو۔۔جہاں مائیں اپنے بھوسی ٹکڑوں کی طرح بیٹوں کیلئے چاند کا ٹکڑا بہو تلاش کرے۔۔ جہاں گلی گلی میں انگریزی میڈیم سکول کھلے ہوں مگر ان کی میڈموں کو انگریزی کا ایک لفظ نہ آتا ہو۔۔ جہاں ٹائم کا اندازہ سورج کے بجائے لائٹ آنے جانے سے لگایا جائے۔۔ ایسی جگہ پر کس کو ضرورت ہے کہ جھوٹ بولے۔۔ انسان اپنا کاروبار چلانے، اپنا مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسموں اور جھوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سچ بول کر ان کا مال نہیں بکے گا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بِک جاتا ہے مگر برکت نہیںرہتی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اللہ نے قرآن میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے۔۔۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم ایسی حرکتیں کرکے لعنتیوں میں تو شمار نہیں ہورہے ؟خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔