اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ نے حتمی رپورٹ دینے کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔ دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے صاحبزادے نمر مجید کو بھی گرفتار کر کے شامل تفتیش کرنے کا عندیہ دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 'مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی پیش رفت رپورٹ آ چکی ہے جو اومنی گروپ کے بینک اکاونٹس سے متعلق ہے'۔اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ 'مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات جاری ہیں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'جے آئی ٹی کو تشکیل ہوئے 3 ماہ ہو گئے ہمیں احساس ہے یہ ایک مشکل کام ہے اور کوئی شک اور شبہ نہیں کہ جے آئی ٹی اچھا کام کر رہی ہے لیکن کیس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی نہیں کر سکتے'۔جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے حتمی رپورٹ دینے کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔
سندھ بینک کے وکیل خواجہ نوید نے بتایا کہ 'اومنی گروپ کا 70 سے 80 فیصد سرمایہ بینکوں سے قرض ہے۔ بینکوں سے کہا جائے کہ ملوں کا کنٹرول لے لیں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ہم بینکوں کو بلا لیتے ہیں یہ بینکوں کا نہیں عوام کا پیسہ ہے۔ بینکوں کے نمائندے پیش ہوں گے تو ہم ان سے صورت حال سمجھ لیں گے'۔
جسٹس ثاقب نثار نے اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اومنی گروپ کے ہنڈی کے پیسے بھی مل گئے ہیں۔ لانچوں کے ذریعے جو پیسے بھیجتے رہے ہیں وہ واپس کر دیں تو ہم کیس ختم کر دیں گے'۔
اس موقع پر منیر بھٹی نے جواب دیا کہ 'اومنی گروپ کی 3 ملیں اور ڈیفنس کی جائیدادیں بینکوں کو دینے کو تیار ہیں تاہم نیشنل بینک کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ نیشنل بینک کو یہ چیز منظور نہیں'۔
اس موقع پر اغوا شدگان کے وکیل سردار اسلم نے بتایا کہ ان کے دو گواہ غائب کر دیے گئے ہیں۔ دونوں ایف آئی اے میں پیش ہوئے اس کے بعد غائب ہو گئے۔ جس پر چیف جسٹس نے جعلی اکاونٹس کیس میں آئی جی سندھ کو نوٹس جاری کر دیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'قرضے کے لیے دی گئی مختلف سیکیورٹیز اب متعلقہ بینکوں میں موجود نہیں'۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے نمبر مجید کو گرفتار کر کے شامل تفتیش کرنے کا عندیہ دے دیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'نمر مجید کو بھی باپ کے ساتھ بند کریں اور اندر بیٹھ کر دونوں مسئلہ حل کریں'۔ جس پر نمر مجید نے جواب دیا کہ 'مجھے سیکیورٹی غائب ہونے کا علم نہیں ہے اور میں شوگر مل کے معاملات کو دیکھتا ہوں'۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ 'انور مجید کے دوسرے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو اڈیالہ منتقل کریں اور فون پر پورے سندھ کو ڈکٹیشن دے رہا ہے'۔
دوران سماعت گرفتاری کا عندیہ ملنے پر نمر مجید کو چکر آ گئے اور ان کے لڑکھڑانے پر وکلاء نے انہیں تھام لیا۔
سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے نمر مجید کی اہلیہ اور والدہ کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا 'آپ کو ہم نے پہلے بھی بلایا تھا اور بہت عزت دی تھی'۔
چیف جسٹس نے نمر مجید کی اہلیہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ میری بیٹیوں کی طرح ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ تعاون کریں اور لین دین کے معاملات میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے جبکہ دولت رحمت ہوتی ہے اسے زحمت نہ بنائیں'۔
چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے 'ہمیں سب معلوم ہے آپ کے گھر کے سامنے جو گھر ہے ہمیں اس کا بھی پتا ہے۔ اس گھر کے اندر جو گڑھا کھودا گیا ہے ہمیں اس کا بھی پتا ہے۔ اس گڑھے کے اندر سے جو کاغذ نکلے ہیں اس کا بھی ہمیں پتہ ہے اور ہمیں اس کیس کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے'۔
نمر مجید کی اہلیہ نے عدالت کے روبرو کہا کہ 'باقی سارے بینک مان گئے ہیں صرف نیشنل بینک نہیں مان رہا'۔جسٹس ثاقب نثار نے نمر مجید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کو اس دن آپ کی بیوی اور والدہ کی وجہ سے گرفتار نہیں کرایا'۔
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہفتے کو دوبارہ آپ کو طلب کریں گے اور بینکوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کریں لیکن ہفتے کو آخری دن ہو گا اور اس کے بعد موقع نہیں ملے گا'۔
چیف جسٹس نے اگلی پیشی پر انور مجید کے دوسرے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔