انگلی پر پہنے جانے والے ہلکے پھلکے کیمرے کی مدد سے نابینا افراد بھی اب ہر قسم کی کتاب پڑھ سکتے ہیں کیونکہ سطر پر انگلی پھیرتے ہوئے کیمرہ الفاظ اور جملوں کو ادا کرتا ہے جسے نابینا افراد سن سکتے ہیں جب کہ اس ایجاد کے بعد ابھرے ہوئے الفاظ یا نقطوں والی بریل کتابوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔نابینا افراد کے لیے کے این ایف بی جیسی کئی ایپ بھی موجود ہیں جو کتاب کی تصویر لے کر اسے ٹیکسٹ میں بدل کر سناتی ہیں لیکن نابینا یا کمزور نظر والے افراد کتاب کے صفحے یا اخبار کے گوشے کی تصویر درست انداز میں نہیں لے سکتے اور اسی کمی کے لیے انگلی پر پہنا جانے والا کیمرہ بنایا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سائنسدانوں نے اس آلے کا نام ’’ہیںڈ سائٹ‘‘ یا دستی نظر رکھا ہے جس میں اینڈواسکوپی کے لیے ایک باریک کیمرہ لگا ہے جو صرف ایک ملی میٹر موٹا ہے۔ یہ کیمرہ انگلی کے پور پر سماجاتا ہے اور انگی پھیرتے ہی ٹیکسٹ سنانے لگتا ہے خواہ وہ اخبار کی تحریرہو، کتاب ہو یا پھر کسی ہوٹل کا مینو ۔ کیمرے کی تھرتھراہٹ انگلی رکھنے والی کی رہنمائی کرتی ہے اور اسی طرح پڑھے جانے والے الفاظ کی رفتار کو بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔اسے 19 نابینا افراد پر آزمایا گیا اور ان کے سامنے اسکول کی کتابیں اور میگزین رکھے گئے۔ اوسطاً انہوں نے ایک منٹ میں 63 سے 81 الفاظ پڑھے جب کہ بریل سسٹم کے ذریعے 90 سے 115 الفاظ پڑھے جاتے ہیں۔ بینائی والے خوش نصیب افراد 200 الفاظ فی منٹ پڑھ سکتے ہیں۔
انگلی کے اشارے سے پڑھائی: کئی شرکا نے اسے بہت مؤثر پایا ہے۔ ایک نابینا نے کہا کہ یہ اس کی زندگی پربہتر اثر ڈالتا ہے جب کہ بقیہ افراد نے کوئی رائے نہیں دی۔ لیکن انہوں نے اتنا ضرور کہا ہے کہ بریل کے مقابلے میں انگلی والے کیمرے سے سطر تلاش کرنا اور ہموار انداز میں پڑھنا قدرے آسان ہے۔امریکا میں نابینا افراد کے فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اس جگہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے جہاں چھپی ہوئی تحریر کو لے آؤٹ کی وجہ سے پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔کمپنی کے مطابق وہ مستقبل میں کیمرے کو اسمارٹ واچ جیسے آلے سے جوڑ کر رنگ اور خدوخال شناخت کرنے کے قابل بنانے کی کوشش کرے گی تاکہ لوگ اس سے مزید فائدہ اٹھا سکیں۔