پوائنٹ آف نو ریٹرن

پوائنٹ آف نو ریٹرن

ملکی صورت حال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ لگتا اب واپسی بہت مشکل ہے۔ کچھ تجزیہ کار اسے پوائنٹ آف نو ریٹرن بھی کہہ رہے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی بدحالی ہے۔ معاشی صورتحال کو سنبھالنا حکومت کی ذمہ داری تھی جو وہ پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے سیاسی امن سب سے پہلا قدم ہوتا ہے لیکن پچھلے پورے ایک سال میں ہر روز اس سیاسی ابتری میں اضافہ ہی دیکھنے کو آیا ہے۔ عمران خان نے جتنی بار ریلیاں نکالیں پُرامن رہنے کی کوشش کی لیکن حکومت کی طرف سے اپوزیشن پر مسلسل دباؤ بڑھانے کی پالیسی رہی۔ دھڑا دھڑ مقدمات، گرفتاریاں، چھاپے اور دھمکیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی نظر آئیں۔ تحریک انصاف کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ نوے دن میں الیکشن کا آئینی حق دے دیا جائے لیکن حکومت نے مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین اور عوامی حق کو تسلیم کرنے سے صاف اور مسلسل انکار کیا۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ساتھ بھی محاذ آرائی کو ترجیح دی۔ پاکستان اگر معاشی طور پر مضبوط ہوتا تو یہ جھٹکے سہہ جاتا لیکن اب ایک طرف ڈیفالٹ پر آ گیا ہے اور دوسری طرف لا اینڈ آرڈر کی صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آگے مزید تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ حالات سے لگتا ہے کہ صورتحال ایک ایسی بندگلی بن چکی ہے جس سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بند ہو چکا ہے۔ عسکری و دیگر املاک کا جلاؤ گھیراؤ ایسا سانحہ ہے جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھنے میں نہیں آیا اور میں اسے سیاسی کے بجائے قومی المیے سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوں۔ کوئی بھی ملک اور قوم ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن عوام اور فوج کے درمیان اگر خلیج حائل ہو جائے تو اسے پار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ یہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ملک کو اس حال تک پہنچانے میں اندرونی و بیرونی دونوں عناصر کی کار فرمائی ثابت ہے۔ اس حال تک پہنچنے میں کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کوئی ایک پارٹی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو شاید حالات سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی۔ عمران خان کی گرفتاری نے جس ہجوم کو مہمیز دی اس کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں اکثریت ان نوجوانوں کی نظر آتی ہے جو کم تعلیم یافتہ اور بے روزگار یا غربت زدہ ہیں۔ چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کی اکثریت ڈنڈے اٹھائے یوں توڑ پھوڑ کرتے نظر آئے جیسے ان کے نزدیک یہ کوئی شغل میلہ ہے۔ پھر لوٹ مار کا سامان اٹھانا، پنکھے اتار کے لے جانا، پرنٹر اٹھا لینا اس ذہنی میلان کا پتہ دیتا جو غربت اور اخلاقی اقدار کی کمزوری کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ اس پورے قضیے میں یہ بات بھی قابل
غور ہے کہ یہ ہجوم کسی سیاسی قیادت کے بغیر خود ارادی کے جذبے کے تحت نکلا ہے اور منہ اٹھا کر اس طرف چل پڑا ہے جس طرف جانے کی کسی نے مجمعے میں سے آواز لگا دی۔ چلیں اگر حکومت کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ اس سب کے پیچھے تحریک انصاف کا ہاتھ ہے لیکن معاشی تباہی کے الزام سے حکومت لاکھ زور لگا لے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے
مطابق ”گیارہ اپریل سے لے کر گیارہ مئی تک ایک مہینے تک ڈالر اور روپے کے درمیان ایکسچینج ریٹ 180 سے 186 تک برقرار رہا جس میں معمولی اتار چڑھاؤ ہوتا رہا تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان ریکارڈ کیا گیا اور ڈالر 190 روپے کی حد کو عبور کر کے 19 مئی 2022 کو 200 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور بیرونی ذرائع سے کوئی قابل ذکر فنانسنگ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت جون کے مہینے کے وسط تک 210 روپے کی سطح عبور کر گئی۔ اس کے بعد روپے میں مسلسل گراوٹ دیکھی گئی اور جولائی کے اختتام پر یہ 239.94 روپے کی سطح پر پہنچ گئی جو اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تھی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے موجودہ حکومت کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ دیکھا گیا تاہم یہ قیمت دو ہفتوں میں 215 روپے کی سطح پر گر گئی جب آئی ایم ایف پروگرام بحالی پر مثبت پیش رفت دیکھی گئی۔ گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا اور یہ 239 کی سطح پر پہنچ گیا تاہم ستمبر کے آخری عشرے میں مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو انہوں نے ڈالر کی قیمت میں کمی لانے کا دعویٰ کیا۔ ان کے اس دعوے کے بعد ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی اور ڈالر کی قیمت چند دنوں میں 220 روپے کی سطح سے نیچے آ گئی تاہم ماہرین کی جانب سے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی قرار دیا گیا کیونکہ اس وقت بلیک مارکیٹ ڈالر 260 روپے سے اوپر بک رہا تھا۔ مصنوعی طریقے سے ایکسچینج ریٹ پر کنٹرول کو اس وقت ختم کرنا پڑا جب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے مذاکرات شروع ہونے سے چند دن قبل 26 جنوری 2022 کو فری ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے ڈالر کی قیمت ایک دن میں 230 روپے سے 255 روپے تک جا پہنچی اور اس سے اگلے دن 262 روپے اور اسے اگلے چند روز میں 275 روپے تک جا پہنچی“۔
کیا حکومت کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں خود حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ میں تو اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ لوگ عمران خان کی محبت میں کم اور غربت و افلاس کی اذیت کے باعث زیادہ غم و غصے میں ہیں اور رہیں گے۔