کِسی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر سچ میں ڈنڈی مارنا بھی اصل میں حق کے مقابلے میں باطل کا ساتھ دینا ہی ہوتا ہے، چنانچہ خان صاحب جتنا چاہے اب ہمیں اُکساتے رہیں کہ ہم اُن کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر اُس حق کا ساتھ دیں جو صرف اُن کے حق میں ہے۔ ہم سے تو اُن کا اصلی روپ دیکھنے کے بعد اب یہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کسی ’’معجزے‘‘ کے تحت کوئی اچھا کارنامہ اُن سے سرزدہوگیا اُس کی تعریف حسبِ معمول ہم کرتے رہیں گے …اب اگر ہم اِس سوچ میں پڑ جائیں خان صاحب کے جلسے بہت بڑے ہورہے ہیں، یا وہ دوبارہ وزیراعظم بن جائیں گے یا اُن کی ناقص سوچ کے خلاف لِکھنے پر ہمارے قارئین، عزیزواقارب یا دوست وغیرہ ہم سے ناراض ہوجائیں گے، پھر پورا سچ ہم لکھ ہی نہیں سکتے ۔…ویسے ’’پوراسچ‘‘ جو برس ہا برس سے دوسرے سیاسی چوروں وڈاکوئوں کے بارے میں ہم لکھتے یا بولتے رہے اُس پر خان صاحب شاندار الفاظ میں ہمیں خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے، وہ فرماتے تھے ’’تم جرنلزم نہیں کررہے تم جہاد کررہے ہو‘‘ …اب اُن کی نااہلیوں کے خلاف لکھنے پر ہمیں گالیاں پڑتی ہیں، ہم پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کیا ’’ اصلی جہاد‘‘ صرف وہی ہے جو خان صاحب کے ہر ناجائز جائز عمل کی حمایت کرکے ہی کیا جائے ؟۔…پورا سچ یہی ہے خان صاحب آئین پرکلہاڑیاں چلارہے ہیں۔ اُن کی حماقتیں دِن بدن بڑھتی جارہی ہیں، جیسے اُن کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد دِن بدن بڑھتی جارہی ہے، دنیا میں اُنہیں اُن کی حماقتوں کا صِلہ مِل رہا ہے، آخرت میں صِلہ صرف اُنہیں اُن کی نیکیوں کا ملے گا۔ ممکن ہے وہ اپنے جھوٹ اور اپنی منافقتوں کو بھی اپنی ’’نیکیاں‘‘ ہی سمجھتے ہوں اور اِس یقین میں مبتلا ہوں کہ آخرت میں اِس کا بھی اُنہیں اچھا صِلہ ہی ملے گا۔ بصورت دیگرمولانا طارق جمیل صاحب کی خدمات وہاں بھی حاصل کرلی جائیں گی … اپنے کچھ خوشامدی مشیروں کے مشوروں پر ہر اُس ادارے کو اُنہوں نے اپنے خلاف کرلیاجوکسی نہ کسی حوالے سے اُن کا محسن تھا، چنانچہ وہ اپنے کچھ مخلص دوستوں یا انسانوں کے حوالے سے ہی نہیں کچھ اداروں کے حوالے سے بھی اچھے خاصے ’’ محسن کُش‘‘ نکلے۔ کم ازکم اُن اداروں کا تو کچھ لحاظ کرلیتے جنہوں نے اُن کے اقتدار کی راہ ہموار کی، …کچھ لوگوں کا خیال ہے خان صاحب آج کل جوکچھ کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں، ہوسکتا ہے وہ واقعی سچ کہہ رہے ہوں، اصل بات یہ ہے وہ اپنی اِن حالیہ سچائیوں پر کتنا عرصہ قائم رہ سکیں گے؟ کیونکہ ’’ کہہ مُکرنیوں‘‘ میں جتنی مہارت اُنہیں حاصل ہے شاید ہی اور کسی کو ہوگی۔ سو ممکن ہے آج کل وہ جنہیں میر صادق یا میر جعفر کہتے ہیں کل کلاں اپنے کسی فائدے کے لیے اُنہیں دنیا و آخرت کا سب سے بڑا ’’صادق وامین ‘‘ قرار دے رہے ہوں، جیسے 2018ء کے الیکشن سے پہلے وہ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے یا شیخ رشید کے بارے میں فرماتے تھے ’’میں اُسے اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں‘‘…ویسے شیخ رشید وزیر داخلہ بن کر بھی اُن کے چپڑاسی ہی بنے رہے۔ اِس سے قبل اُن کی ڈیوٹی جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار پر تھی جس کی بنیاد پر وہ اکثر یہ دعوے کررہے ہوتے ہیں کہ اُنہیں سب پتہ ہے سارے سیاستدان گیٹ نمبر 4کی پیداوار ہیں ،… جہاں تک خان صاحب کی حالیہ مقبولیت کا تعلق ہے وہ نون لیگ یا اپوزیشنی جماعتوں کی عطا کردہ ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے نون لیگ ہمیشہ بڑی بے صبری رہی ہے، اِس مقصد کے لیے اِس جماعت کا بیانیہ بھی بدلتا رہا ہے، اب بھی ووٹ کو عزت دو کے راستے پر چلتے چلتے اچانک یہ بوٹ کو عزت دو کے راستے پر پڑ گئے۔ اصل میں اُن کا اصلی راستہ ہے ہی یہی ہے جس سے بار بار وہ بھٹک جاتے ہیں، اب اپنے پائوں پر اُنہوں نے پھر کلہاڑی بلکہ کلہاڑا مار لیا ہے، تھوڑا سایہ صبر کرلیتے، کسی کے بہکاوے میں نہ آتے، استعمال نہ ہوتے۔ کسی سازش کا حصہ بننے سے معذرت کرلیتے، خان صاحب کو اُن کے لُولے لنگڑے اقتدار کی مدت پوری کرنے دیتے۔ تو گزشتہ پونے چار برسوں میں اپنی حکومت کی جو نااہلیاں مسلسل وہ دیکھا رہے تھے۔ اداروں کو جس طرح تباہ وہ کررہے تھے، نالائقوں اور سازشیوں کو پکڑ پکڑ کر جس طرح اہم عہدوں سے وہ نواز رہے تھے، سرکاری محکموں میں انھے وا کرپشن کو جس طرح مسلسل وہ برداشت کررہے تھے، خارجہ پالیسی کا جس طرح کباڑہ وہ کررہے تھے، اپنی ذاتی پالیسیوں کو جس طرح لاگو وہ کرتے جارہے تھے اِن تمام ’’کارناموں‘‘ کی بنیاد پر 2023کے الیکشن میں اُن کا شاید نام ونشان مٹ جاتا… پتہ نہیں اپوزیشنی جماعتوں خصوصاً زرداری اور اُس سے بھی زیادہ نون لیگ نے خان صاحب کے کسی احسان کا بدلہ چُکایا کہ ’’اصلی قوتوں‘‘ کے بہکاوے میں آکر خان صاحب کی روزبروزگرتی ہوئی مقبولیت کو اچانک ایسا سہارا دیا اب بے چاری نون لیگ کو سمجھ ہی نہیں آرہی اصل میں اُس کے ساتھ یہ ہاتھ کیا کِس نے ہے؟۔نہ اُن کی یہ سمجھ میں آرہا ہے وہ کون سا کام کرے تو اُسے اُس کا فائدہ ہوگا کون سا کرے تو نقصان ہوگا؟۔ اب خدشہ یہ ہے مزید بہکاوے میں آکر یہ مزید ایسی ’’چولیں‘‘ نہ مار بیٹھے کہ اگلے الیکشن میں بھی وہی پوزیشن ہو جوپچھلے الیکشن میں تھی، گزشتہ پونے چار برسوں کا گند یہ اپنی جھولی میں ڈال کر اب حیران پریشان بیٹھے ہیں ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اختیار کرکے تھوڑی بہت عزت جو اُن کی بحال ہوئی تھی اب ایک بار پھر ’’نذرپانامہ‘‘ ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ لوگ جلد بازی نہ کرتے تواگلے الیکشن میں خان صاحب جتنا مرضی ’’فیض یاب‘‘ ہوتے نون لیگ کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ واقعی چل جانا تھا۔ جس کے نتیجے میں اُس کے اقتدار کا واقعی اچھا خاصا ’’خطرہ‘‘ تھا …ہمارے اِس ’’خطرے‘‘ اور اپنے اِس فائدے کو نون لیگ آپ ہی کھاپی گئی۔ اب نواز شریف یہ غلط فرماتے ہیں ’’2023کے انتخابات میں عمران نیازی سے مکمل جان چھوٹ جائے گی ‘‘۔…فرض کرلیں اُن کی یہ بات درست ثابت ہو بھی گئی، خان صاحب سے جان چھوٹنے کے بعد عوام اور ملک کی جان ایک بار پھر اُن کی پکڑ میں آبھی گئی تو اِس کے لیے ایک بار پھر اُنہیں بوٹ ہی کو عزت دینی پڑے گی جو اقتدار کے حصول کے لیے اُن کے لیے ہرگز مشکل کام نہیں۔ …دوسری طرف خان صاحب بار بار شہباز شریف کو ’’بوٹ پالشیا‘‘ کہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے اُنہیں اتنا غصہ شہباز شریف کے بُوٹ پالش کرنے پر نہیں جتنا اِس بات پر ہے کہ اِس اعزاز سے وہ کیوں محروم ہوگئے ہیں ؟۔…’’چیری بلاسم‘‘ کا بار بار ذکر وہ ایسے کررہے ہوتے ہیں جیسے ’’چیری بلاسم کمپنی‘‘ سے اُن کا کوئی معاہدہ طے پاگیا ہوکہ میں آپ کی مشہوری کروں گا آپ مجھے اتنا فنڈ دیں کہ آئندہ مجھے توشہ خانہ کے تحائف نہ فروخت کرنا پڑیں …ایک سوال میں نواز شریف سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ حضور اگر 2022میں پھر بُوٹ ہی کو عزت دینا تھی تو 2018میں اِس سے انکار عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے کیا تھا؟۔ نون لیگ نے مستقبل میں اپنے بڑے فائدے کو حال میں اپنے عارضی فائدے بلکہ نقصان پر قربان کردیا !!