ہماری دیسی جمہوریت بڑی مجمع ساز طرز حکومت ہے جس میں مجمع یا Mob ہی سب کچھ ہے۔ ہماری قومی نفسیات ثابت کرتی ہے کہ ہم جدھر مجمع دیکھتے ہیں ادھر چل پڑتے ہیں اور وہاں جو کچھ کہا جا رہا ہوتا ہے اسے سچ مان لیتے ہیں اور بلا تحقیق اس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود اس طرز حکومت کو مداری جمہوریت کہنے سے قاصر ہوں کیونکہ ہماری یہ بات سیاسی اور فکری اشرافیہ کے طبع ناز ک پر گراں گزرے گی۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہر دور میں اپوزیشن حکومت سے مطالبات منوانے کی خاطر لانگ مارچ دھرنوں اور اسلام آباد کا رخ کیوں کرتی ہے اس کی تہہ میں یہی راز مضمر ہے کہ انہیں پتہ ہے ہم جتنا بڑا مجمع اکٹھا کریں گے اتنے ہی معتبر ہو جائیں گے۔ یہاں سے مجمع بازی کو ایک فن کی حیثیت حاصل ہوئی اور یہاں سے کرائے پر لوگوں کو جلسوں میں لانے کا آغاز ہوا اور پارٹیوں نے اپنے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو اگلے الیکشن کے ٹکٹ کے عوض مجمع سازی کی ذمہ داری sablet کر دی یا کرایہ پر دے دی گئی۔
پی ڈی ایم کی نئی حکومت کی پی ٹی آئی کو ہٹانے کی سب سے بڑی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی تھی۔ ان کی ساری سیاسی سرگرمی کا مرکز و محور مہنگائی اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کا تصور تھا جبکہ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ مہنگائی انٹرنیشنل وبا ہے اس میں ہمارا قصور نہیں ہے مگر ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی کیونکہ ڈالر 188 پر پہنچ چکا تھا اور سٹاک ایکسچینج 43 ہزار پوائنٹ کی نفسیاتی حد سے نیچے گر چکی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈالر تاریخ میں پہلی دفعہ 190 پر ہے اور حکومتی ترجمان رانا ثناء اللہ نے اس کے 200 پر جانے کی پیش گوئی کر دی ہے۔ پٹرول کی جس قیمت پر ن لیگ کو اعتراض تھا یعنی 150 روپے لیٹر کو معیشت کا قاتل قرار دیا جا رہا تھا۔ اب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تحریک انصاف نے 245 روپے لیٹر کا وعدہ کیا ہے لہٰذا ملک میں پٹرول 245 کا ہونا چاہیے۔ عوام الناس کہتے ہیں کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو یہ تو گزشتہ حکومت بھی کر رہی تھی پھر آپ نے اتنی زحمت کس لیے کی ہے۔
پاکستان میں یہ سیاسی روایت فرض نماز کی طرح لاگو ہے کہ جو بھی حکومت میں آئے گا وہ سب سے پہلے سعودی عرب عمرہ کرے گا اس کے لیے کابینہ اور وزراء بھی ساتھ جاتے ہیں اور جب اعتراض کیا جاتا ہے تو نیا رجحان یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ عمرہ سرکاری خرچ پر نہیں کیا جا رہا یہ بات اخباری حد تک ہی ہوتی ہے مگر اس دفعہ اس روایت میں ایک نئے فیچر کا جو اضافہ ہوا ہے جب مسجد نبویؐ میں شرپسند عناصر نے عمرہ کرنے والوں پر آوازے کس کر حرم نبویؐ شریف کا تقدس پامال کیا اور اس مقدس ترین جگہ کو گندی سیاست کا تختہ مشق بنایا جس سے ہر مسلمان کے جذبات کی دھجیاں بکھیری گئیں
لیکن کم از کم اب آئندہ کی نئی حکومتوں کو چاہیے کہ برسراقتدار آ کر عمرہ کرنے کی روایت کا خاتمہ کریں بلکہ اقتدار سے سبکدوشی کے بعد جا کر عمرہ کیا کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگا کریں۔ اس حساب سے یہ عمرہ تو تحریک انصاف والوں کو کرنا چاہیے تھا تا کہ ابدی حساب کتاب آسان ہو جاتا۔
وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے حکم دیا ہے کہ شادیوں پر ون ڈش کی پابندی کو سو فیصد یقینی بنایا جائے کیونکہ اس فضول رسم سے عوام کی مالی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ ہومیوپیتھک قسم کا آرڈر ہے جس کا فائدہ نہ بھی ہوا تو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن ہمارے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو نہ سکیں جب ہماری آنکھوں کے سامنے چکن 600 روپے کلو اور لیموں 1200 روپے کلو میں فروخت ہوتے رہے مگر صوبائی اور وفاقی سطح پر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مجھے یقین تھا کہ وزیراعلیٰ ضرور اس پر حرکت میں آئیں گے۔ ہماری سیاست کا ایک مقبول جملہ ہے کہ فلاں کام کسی کا باپ بھی نہیں کر سکتا۔ چکن کی قیمت پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وزیراعلیٰ تو کیا ان کا باپ بھی پولٹری مافیا کے منافع میں کچھ نہیں کر سکا۔ آپ کو بھی پتہ ہے اس سے ہماری مراد ناشائستہ زبان نہیں بلکہ یہ کہنا ہے کہ نہ تو وزیراعلیٰ نے کچھ کیا اور نہ ہی وزیراعظم کے دفتر میں کوئی پتہ ہل سکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تعین ڈیمانڈ اور سپلائی نے ہی طے کرنا ہے تو پھر حکومت کا کیا کردار ہے۔ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کا 80 فیصد مقامی حالات کی وجہ سے ہے۔ پرائس کنٹرول میکانزم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ پرانے ادوار میں یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی commodity کی قیمت جائز اور اخلاقی حد سے زیادہ ہو جاتی تھی تو گراں فروشوں پر کریک ڈاؤن کر کے ان کو جیلوں میں ڈالا جاتا تھا۔ ایک آدھ دفعہ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ پرچون فروختکار ایسی صورتحال میں جو اس ہفتے چکن کے بارے میں پیدا ہوئی ہے اس کی فروخت بند کر کے دکانوں کو تالا لگا دیتے تھے۔ اس کے پیچھے گرفتاری اور جرمانے کا خوف ہوتا تھا اس کا ردعمل یہ تھا کہ پولٹری مافیا ایک مناسب حد سے آگے چاہے بھی تو منافع نہیں کما سکتا کیوں کہ پڑتال اور سیل بند ہونے سے انہیں نقصان ہونا شروع ہو جاتا تھا۔
یہ ایک موقع تھا وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے لیے کہ وہ پاپولر سیاست کی خاطر ہی سہی اس معاملے میں طوفانی مداخلت فرما دیتے مگر ان دونوں نے یہ موقع ضائع کر دیا ورنہ ایک حوالہ بن جاتا البتہ وزیراعظم شہباز شریف کو 2 باتوں کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہے۔ بر سر اقتدار آنے سے لے کر اب تک وہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ PKLI لاہور کا دو دفعہ دورہ کر چکے ہیں یہ ادارہ دنیا کا جدید ترین ٹرانسپلاٹ آدھی سے بھی کم قیمت پر سر انجام دے رہا ہے۔ 20 ارب کا یہ منصوبہ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ شروع کیا تھا۔ 2 سال سیاسی وجوہات کی بنا پر گزشتہ حکومت میں یہ بند رہا اب بھی اس کے 20 آپریشن تھیٹر میں سے صرف 6 کام کر رہے ہیں کیونکہ سٹاف اور سہولیات کی کمی ہے لیکن یہ شہباز شریف کا pet project ہے۔ امید ہے وہ ضرور اس کو توسیع دیں گے۔
دوسرا کام یہ ہے کہ انہوں نے بر سر اقتدار آنے کے چند روز بعد دیامر بھاشا ڈیم کا دورہ کیا جو 2029ء میں تکمیل ہونا ہے وزیراعظم نے اس کو 2026 ء تک مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی جو بظاہر ممکن نہیں اس منصوبے سے 5000 میگاواٹ بجلی سمجھیں کہ مفت پیدا ہو گی جبکہ اس وقت تھرمل پاور سے حاصل ہونے والی بجلی 35 روپے یونٹ سے تجاوز کر چکی ہے دیامر بھاشا میں یہ 10 روپے سے بھی کم لاگت میں پیدا ہو گی۔
میں نے اپنے طور پر یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کتنی دفعہ بھاشا ڈیم منصوبے پر تشریف لے گئے مگر ابھی تک مجھے ان کے کسی ایک وزٹ کی بھی تصدیق نہیں ہوئی۔ شہباز شریف اگر سیاسی مجبوریوں کی پروا نہ کریں تو ان کی ریاستی ترجیحات پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔