ملک بھر میں سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے، لمحہ بہ لمحہ صورتحال بدل رہی ہے۔ کل کیا ہو گا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیراعظم پہلی بار بہادر آباد بھی پہنچ گئے جن کو چور چور اور ڈاکو کہا جا رہا تھا، انہیں رام کر کے ان سے حمایت مانگی گئی بدلے میں مطالبات کے ڈھیر لگ گئے۔ اب عمران خان دس منٹ کی ملاقات کے بعد آگے چل پڑے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ عمران خان کو اپنی پارٹی پر بھی گرفت نہیں جس سے لوگ بکھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ علیم خان جس نے 2011ء کا جلسہ لاہور کا سارا خرچہ کیا تھا، وہ بھی ترین گروپ سے جا ملے ہیں جس سے پارٹی میں ہلچل مچ گئی ہے۔ یاد رہے کہ جب علیم خان پارٹی میں شامل ہوئے اور انہوں نے جلسے کا خرچہ کیا تھا تو حفیظ اللہ نیازی، جو ان کو پسند نہیں کرتے تھے، نے علیم خان پر اعتراض کیا تو علیم خان نے کہا تھا کہ مجھ پر اعتراض کرنے والے میرے پیسے پر بھی اعتراض کریں؟ جس پر حفیظ نیازی خاموش ہو گئے۔ عمران خان اب تک سیاست کے داؤ پیچ نہیں سمجھ سکے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس کو چاہوں وزیر بنا دوں جس کو چاہوں وزیر اعلیٰ بنا دوں، جو غلط ہے۔ سیاست میں سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں تک دسترس نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ وہ پارٹی کو مینج نہیں کر سکے۔ بھٹو ایک زیرک سیاستدان تھے مصطفٰے کھر ان کے کار خاص تھے بلکہ بھٹو مرحوم انہیں خوبصورت منڈا کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ حنیف رامے بھی بھٹو کے یار خا ص تھے جب دونوں نے بغاوت کی تو دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود اکھٹے ہو گئے اور مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا اور بھٹو کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے۔ بھٹو کے مقابلے میں عمران خان کس باغ کی مولی ہے؟ بھٹو کی طرح عمران خان کی بھی پارٹی پر گرفت کمزور سے کمزور پڑتی چلی جا رہی ہے، دوسری طرف اگلے الیکشن میں ترین اور نواز شریف میں بھی اندر کھاتے معاملات چل رہے ہیں، جس کا خمیازہ تحریک انصاف کو بھگتنا پڑے گا۔ نہ جانے حکمران کس بات پر اترا رہے ہیں وفاق میں کارکردگی بہتر ہے نہ پنجاب میں۔ کہیں بھی گڈ گورنس نظر نہیں آ رہی۔ مجبوری میں کچھ کڑوے فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں جو وزیر اعظم نہیں کر رہے، مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اسی لیے اب وہ ڈی چوک والی زبان استعمال کر رہے ہیں جو ان کے منصب کے شایان شان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، مشیروں نے مشورہ دیا کہ مخالفین کو رام کرنے کیلئے اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں امیدوار نہیں ہوں گے اور پھر یہی ہوا۔ ایوب خان کے اعلان کرتے ہی پارٹی میں بھگڈر مچ گئی اپنی ہی پارٹی پر وہ گرفت نہ رکھ سکے اور پارٹی ریزہ ریزہ ہو گئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں جب پی این پی کی تحریک چلی کہ اسلام نافذ کرو، جمعہ کی چھٹی کرو، جوئے خانے بند کرو وغیرہ وغیرہ تو حالات جب آؤٹ آف کنٹرول ہوئے تو یار لوگوں نے مشورہ دیا کہ مطالبات مان لینے کا اعلان کر دیں تو تحریک کمزور پڑ جائے گی لیکن اس کے بعد مخالفین اور شیر ہو گئے اور ان کی پارٹی پر وہ گرفت نہ رہی جو پہلے تھی۔ عمران خان بھی اس وقت سخت مشکل میں ہیں، انہیں اپنی پارٹی کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ اگر ان کے ہاتھ سے پارٹی نکل گئی تو ایوب خان اور بھٹوجو طاقت کے زور پر سب کچھ کر گزرنے کو ہی عافیت جانتے تھے، سے بھی حالات برے ہوں گے کیونکہ شیخ رشید جیسے مفاد پرست ہر دور میں حکومتوں کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہانگیر ترین، چودھری سرور اور عبدالعلیم خان کے بغیر پی ٹی آئی آگے بڑھ سکتی ہے کیونکہ ان تینوں نے پارٹی کیلئے بہت آبیاری کی ہے کیا ان تین مخلص، وفادار اور مقصد کے ساتھ جڑے رہنے والے سیاستدانوں کو نظر انداز کر کے وزیراعظم عمران خان تن تنہا سیاسی بحرانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ ان تینوں افراد نے پی ٹی آئی کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے کسی عہدے کے لالچ میں نہیں بلکہ عمران خان کے دو نہیں ایک پاکستان کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے کام کیا۔ عمران خان کو ایوان وزیراعظم تک پہنچانے اور ملک میں تیسری سیاسی جماعت کو مضبوط قوت بنانے کے لیے پیسہ خرچ کیا، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کیا، گلے شکوے ہوتے ہیں، ناراض دوستوں، ساتھیوں کو ناراض چھوڑ دینا کامیابی نہیں ناکامی ہے۔ جب وزیر اعظم اتحادیوں کے گھر جا سکتے ہیں تو ان لوگوں کو گھر کیوں نہیں بلا سکتے جنہوں نے مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ دیا۔ اگر سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کچھ لوگوں کو ساتھ ملایا جا سکتا ہے تو پھر اپنے لوگوں کی بات سننے میں کیا حرج ہے۔ وزیراعظم عمران خان جتنا وقت اتحادیوں پر لگا رہے ہیں اس کا ایک حصہ بھی اپنوں پر لگا دیں تو حالات بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ حالات تیزی سے حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں جو پہلے فیصلہ لیتا ہے سیاست میں اس کو برتری حاصل ہو جاتی ہے، لمحہ بہ لمحہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد اس صورتحال پر مشورہ بھی ہو رہا ہے اور رابطے بھی ہو رہے ہیں، عبدالعلیم خان کا جہانگیر خان ترین کی مہم کا حصہ بننا یہ ثابت کرتا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ہر دوسرے رکن کو مسائل کا سامنا ہے اور حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور سب سے متحرک صوبے میں ان کی اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی وزیر اعلیٰ سے خوش نہیں۔ ناصرف ناخوش ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سردار عثمان بزدار صوبے کو بہتر انداز میں چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ پنجاب میں ناکامی کا مطلب سیاسی شعور رکھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھی اپنی جماعت کو بچا پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن انہوں نے ایک مرتبہ واضح الفاظ میں پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں کے سامنے حقیقت بیان کر دی ہے اب گیند وزراعظم کی کورٹ میں ہے کہ وہ نیا پاکستان بنا پاتے ہیں یا پھر پرانے کے بھی بخیے ادھیڑ دیتے ہیں اس کیلئے چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔ باقی وقت بہت ظالم ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتا؟؟