قراردادِ مقاصد 12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی۔ قراردادِ مقاصد کو ماننے اور منوانے کے بارے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا رہا ہے۔ اس کے اثرات اور مستقبل کے بارے میں باتیں آج بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس سارے شور شرابے کا تعلق قراردادِ مقاصد کی منظوری سے جڑتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے وقت کیسا ماحول تھا اور ارکانِ اسمبلی کی نفسیاتی کیفیات کیا تھیں اس بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں کیونکہ یہ معلومات اسمبلی کی دستاویزات اور تاریخ کی کتابوں میں بند پڑی ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب سرکاری ادارے، قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت نے ’’قائداعظمؒ کے رفقاء سے ملاقاتیں‘‘ کے نام سے شائع کر رکھی ہے جس میں قائداعظمؒ کے ساتھیوں کے انٹرویوز شامل ہیں۔ ان انٹرویوز کی آڈیو کیسٹس نیشنل آرکائیوز اسلام آباد میں محفوظ ہیں۔ مختلف شخصیات کے انٹرویوز پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں فنانس منسٹر اور بعد میں پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد ملک اہم حکومتی رکن اور مسلم لیگی ہونے کے باوجود قراردادِ مقاصد کی منظوری کے حامی نہ تھے جبکہ طالب علمی کے زمانے میں غلام محمد کے روم میٹ اور سرگرم مسلم لیگی ڈاکٹر عمر حیات ملک قراردادِ مقاصد کو منظور کرانے والوں میں سرِفہرست تھے۔ مذکورہ کتاب میں تحریک پاکستان کے کارکن، پنجاب مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں صنعتوں کے مرکزی وزیر چوہدری نذیر احمد کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ انہوں نے مارچ 1949ء کو قراردادِ مقاصد کی منظوری کے وقت کے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’قراردادِ مقاصد کے سلسلے میں 12اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔
قرارداد کے حوالے سے مسلم لیگ دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایک گروپ وہ تھا جو کہتا تھا کہ ملک کو جدید مہذب جمہوری ریاست بناؤ۔ مذہب کا ریاستی معاملات میں زیادہ عمل دخل نہ ہو۔ مذہب کے نام پر لوگوںکے جذبات نہ بھڑکاؤ۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کہیں مذہب کے نام پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل نہ کرنے لگیں۔ قراردادِ مقاصد کی مخالفت کرنے والوں میں غلام محمد آگے آگے تھے۔ دوسرا گروپ ان حضرات پر مشتمل تھا جو یہ کہتے تھے کہ اسلامی ریاست ہونی چاہیے۔ لوگ نمازیں پڑھیں، اللہ کے سامنے سجدے کریں، ان کے دل میں خوفِ خدا ہو۔ ان سرگرم اراکین میں دوسروں کے علاوہ ڈاکٹر عمر حیات ملک اور میں (چوہدری نذیر احمد) تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس رات یہ چیلنج دے دیا گیا تھا کہ آج اس مسئلے کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ لہٰذا اجلاس رات کو ساڑھے نو بجے شروع ہوا۔ ہم لوگ کھانا کھا کر آئے تھے۔ مسٹر لیاقت علی خان نے بھی کہا کہ اس سوال کو طے ہو جانا چاہیے۔ یہ اجلاس رات کے پونے تین بجے تک چلتا رہا۔ میری تقریر کی باری آخر میں آئی۔ اس وقت تک کافی بحث ہو چکی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں (چوہدری نذیر احمد) نے کہا کہ جنابِ صدر اس وقت رات کے تین بجنے والے ہیں۔ سب تھکے ہوئے ہیں۔ کافی بحث ہو چکی ہے اس لیے میں زیادہ بات نہیں کروں گا۔ میرے خیال میں اگر قرارداد پاس ہوئی تو ایک اچھی اسلامی ریاست ابھرے گی‘‘۔ ڈاکٹر عمر حیات ملک قراردادِ مقاصد کو منظور کرانے میں پیش پیش تھے۔ ان کا تعلق سرگودھا کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ پاکستان کی پہلی آئین سازی اسمبلی کے رکن بنے۔ انڈونیشیا، مغربی جرمنی اور جاپان میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ ڈاکٹر عمر حیات ملک نے اپنے انٹرویو میں اس وقت کی سائیڈ لائن سٹوری بتاتے ہوئے کہا کہ ’’قراردادِ مقاصد اسمبلی سے پاس کرانے والے وہ خود تھے۔ انہیں مولانا شبیر احمد عثمانی کی حمایت حاصل تھی جبکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان یہاں تک کہ لیاقت علی خان بھی کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ غلام محمد اور ان کے ہم خیال اس قرارداد کے مخالف تھے۔ ان حضرات نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ قرارداد کو پاس ہونے سے روکیں گے مگر بعد میں لیاقت علی خان کے ساتھ ان کی یہ بات طے ہوئی کہ قراردادِ مقاصد دستور کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ آئین کے صرف دیباچے (پری ایمبل) میں شامل رہے گی۔ دیباچے میں جو چیز ہوتی ہے وہ آئین کا حصہ نہیں ہوتی۔ قرارداد پاس ہونے کے بعد ڈاکٹر عمر حیات ملک سے کابینہ کے ایک رکن نے کہا کہ ہم نے ایسی چال چلی ہے کہ قرارداد پاس بھی ہو جائے اور بے کار بھی ہو جائے۔ ہم نے اس کو دیباچے میں رکھ دیا ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ غلام محمد نے قراردادِ مقاصد کی حمایت کرنے پر ڈاکٹر عمر حیات ملک سے کہا کہ مولوی کو تو ہم مان لیں۔ آپ کی داڑھی نہ مونچھ، پتلون آپ پہنتے ہیں۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ ایک دن خواجہ ناظم الدین نے ڈاکٹر عمر حیات ملک سے پوچھا کہ ’’جب اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی تو کیا ہم عورتوں سے ہاتھ ملا سکیں گے؟ اس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ دستانے پہن کر ہاتھ ملا سکتے ہیں‘‘۔ آج 12مارچ 2022ء کو قراردادِ مقاصد منظور ہوئے 73برس بیت چکے ہیں اور اب یہ آئین کے دیباچے (پری ایمبل) کے بجائے باقاعدہ آئین کا حصہ ہے۔