تحریر: زرمین درانی
رواں سال اپریل میں سمندروں میں گرم ترین درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ سائنسدان ابھی مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔
نیشنل سینٹرز فار انوائرمنٹل انفارمیشن کے سائنسدانوں کے مطابق زمین کا عالمی سمندری درجہ حرارت رواں سال اپریل میں بلند ترین ریکارڈ کیا گیا۔ این سی ای آئی کے مطابق اپریل میں عالمی سمندری درجہ حرارت طویل مدتی اوسط سے زیادہ 1.55 ڈگری فارنائٹ (0.86 ڈگری سینٹی گریڈ) ریکارڈ کیا گیا , جبکہ جنوری 2016 میں عالمی سمندری درجہ حرارت صرف3 0.02 ڈگری فارنائٹ ( 1.01 ڈگری سینٹی گریڈ) ریکارڈ کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 2050 تک عالمی سمندری درجہ حرارت ممکنہ طور پر 5.9 ڈگری تک پہنچ جائے گا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایل نینو موسمی پیٹرن ( El Niño weather patterns) اس سال اس بلند ترین درجہ حرارت کی وجہ ہو سکتی ہے۔ یہ قدرتی طور پر رونما ہونے والا ایک ایونٹ ہے جو درجہ حرارت میں اضافے سے منسلک ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ زمین پندرہ سال میں اتنی ہی گرم ہوئی جتنی اس سے قبل پینتالیس سال میں ہوئی تھی۔ اور اس درجہ حرارت کا زیادہ تر حصہ سمندروں میں ہی جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سمندر ایک ایئر کنڈیشن کے طور پر کام کرتے ہیں جو زمین کی اضافی گرمی اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں لیکن اب ہمیں اس عمل کی قیمت بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ ہمارے سمندروں کا پانی اب شدید تیزابی ہو رہا ہے جو کہ آبی جانوروں اور دیگر جانداروں کے لیے خطر ناک ہے اور جیسے جیسے سمندری پانی گرم ہوتا ہے گلیشیئر بھی خطرناک حد تک پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں جس کے باعث زمین پر درجہ حرارت بھی خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے دعویٰ کیا کہ سمندری پانی میں بڑھتا درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے۔ یہ اضافی گرمی علاقائی اور موسمی درجہ حرارت کی انتہا کو بڑھا رہی ہے، سمندری برف کو کم کر رہی ہے، شدید بارشوں کو تیز کر رہی ہے. پاکستان کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سمندری درجہ حرارت بیپر جوائےطوفان کی شدت کو برقرار رکھنے میں بھی بڑا کردار ادا کر رہاہے۔
سائنسدانوں نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ مسقبل قریب میں سمندری پانی مزید درجہ حرارت جذب کرنے سے قاصر ہو گا جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا اور سمندری جانداروں کے ساتھ ساتھ انسانی حیات بقاء کو بھی شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ زمین پر آکسیجن کی پیداوار کا تقریباً نصف سمندر سے آتا ہے جو کہ درخت اور برساتی جنگلات سے پیدا ہونے والی آکسیجن سے کہیں زیادہ ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس معاملے میں بہتری کی امید صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جب گلوبل گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر قابو پا لینے میں کسی حد تک کامیاب ہوں گے۔