بگڑتے، الٹتے، پلٹتے معاشی حالات کے پس منظر میں اتحادی حکومت کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ 2022-23 پیش کر دیا ہے اس کا حجم 9500 ارب روپے ہے یہ اپنی تاریخ کا وسیع الحجم بجٹ ہے۔ پاکستان کی معیشت یعنی خام قومی پیداوار 300 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ 230ملین نفوس پر مشتمل مملکت پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ریاست ہے۔ ہماری مسلح افواج دنیا کی سات بڑی ایٹمی قوت رکھنے والی افواج میں شمار کی جاتی ہیں ہم زرعی ملک ہیں۔ گندم، کپاس، گنا، چینی، ڈیری پراڈکٹس، لیدر اینڈ گرافٹس، چاول، ترشاوہ پھل اور ایسی ہی کئی دیگر اجناس و اشیا کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں ایک خاص نام اور مقام رکھتے ہیں ہماری 60 فیصد آبادی جوانوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے ہم کسی بھی اعتبار سے کمزور اور ناتواں ملک اور قوم نہیں ہیں ہاں افسوس ناک بات ہماری سیاست اور سیاستدان ہیں جنہیں ملک اور قوم کو چلانا اور توانا بنانا ہے۔ ہمارا نظام گل سڑ چکا ہے۔ ہمارا اشرافیہ بگڑا ہوا ہے۔ اسے کچھ دانشور بدمعاشیہ بھی کہتے ہیں جو کسی حد تک ایک سچ بھی ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے ہمارے ہاں جمہوری ہو یا غیرجمہوری نظام اسے چلنے ہی نہیں دیا گیا ہے 1956 میں ہم نے دستور بنایا لیکن جنرل میجر جنرل سکندر مرزا کی بدمعاشیوں اور جنرل ایوب کی سازشوں کے نتیجے میں وہ چل نہیں سکا حتیٰ کہ 1958 میں ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا گیا کہا جاتا ہے کہ ایوبی مارشل لا کے دور میں ملک میں معاشی خوشحالی آئی۔ جزوی طور پر یہ بات درست ہے لیکن اسی دور میں 22 بڑے خاندان بھی معرض وجود میں آ گئے تھے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادیں بھی قائم کر دی گئی تھیں ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان ایوان اقتدار سے رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اپنا بنایا ہوا 1962 کا دستور بھی ملیا میٹ کر گئے مستعفی ہوتے وقت اقتدار سپیکر اسمبلی کے بجائے جنرل یحییٰ کے حوالے کر گئے جن کے دور حکمرانی میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ پھر 77ء کا مارشل لا ، 1999 کا مشرف مارشل لا مسلط ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنی مرضی کی سیاسی جماعت اور قیادت ’’تخلیق‘‘ کی۔ مسلم لیگ اور نوازشریف اسی دور کی یاد ہیں۔ پھر جنرل مشرف نے مسلم لیگ اور چودھری برادران بنائے جبکہ جنرل پاشا اور جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کے عمران خان کو ’’لیڈر‘‘ بنایا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے ہی کھیل تماشوں کے باعث ملک معاشی طور پر بھی ابتری کا شکار نظر آ رہا ہے اور سیاست میں بھی گھڑمس مچا ہوا ہے۔ قومی معیشت تباہ حال ہے سیاستدان دست و گریبان ہیں مقتدر قوتوں کی تازہ ترین تخلیق آپے سے باہر ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ہماری قومی معیشت، بڑی معیشت ہے لیکن عدم توجہ اور داخلی نقائص اور تضادات کے باعث شدید مشکلات میں گھری ہوئی ہے ہم نے ایک عرصہ تک، بلکہ طویل عرصے سے اپنے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کر لیا ہے جبکہ ہماری آمدنی ان اخراجات کو برداشت کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہی ہے مالی سال 2022-23 کے لئے اخراجات کا تخمینہ 9500 ارب روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ جس میں 3950 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر اٹھ جاتے ہیں، دفاعی اخراجات کی مد میں 1523 ارب روپے خرچ ہونا ہیں۔ کار سرکار چلانے کے لئے 500 ارب روپے سے زائد خرچ کئے جائیں گے گویا تین مدات میں
6000 ارب روپے خرچ ہو جائیں گے۔ ٹیکس وصولیوں سے 7000 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ذرا غور کریں ہماری کل ٹیکس آمدن 7000 ارب روپے میں سے 6000 ارب روپے فی الفور قرضوں پر سود، دفاع اور کارسرکار پر خرچ ہو جانے کے بعد باقی کیا بچتا ہے یہی بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے ہم دوچار ہیں۔ 4000 ارب روپے قرضوں پر سود ادا کرنے کے بعد قومی تعمیروترقی تو دور کی بات ہے اخراجات جاریہ کو پورا کرنے کے لئے کچھ بھی رقم نہیں بچتی ہے۔ گزرے مالی سال 2021-22 کے دوران تجارتی خسارے کا حجم 45 ارب ڈالر ہے۔ ذرا غور کریں ہماری برآمدات، ہماری درآمدات کا بوجھ اٹھانے سے یکسر عاری ہے ہم نے زرمبادلہ زیادہ سے زیادہ کمانے کی بجائے، یعنی برآمدات بڑھانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کو خرچ کرنے کی پالیسی اختیار کئے رکھی ہماری درآمدات کی فہرست کا مطالعہ حیران کن ہے ہم ایسی ایسی اشیا پر زرمبادلہ خرچ کر رہے ہیں کہ جن کاذکر شرمناک ہے۔ ہم آئی ایم ایف سے 1 ارب ڈالر کی قرض کی قسط حاصل کرنے کے لئے جس طرح پاپڑ بیل رہے ہیں ہمارے 6 ارب ڈالر کے قرضہ پیکیج کو جاری رکھنے کے لئے آئی ایم ایف ہم سے جس طرح اپنی شرائط منوا رہاہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں دوسری طرف ہم اپنی اوقات سے زیادہ زرمبادلہ غیرضروری بلکہ بالکل غیرضروری اشیا کی امپورٹ پر خرچ کر رہے ہیں۔ گاڑیاں ، موبائل فون، جوسز، اعلیٰ درجے کا پینے کا پانی، گھی، مکھن، پنیر، میک اپ کا سامان، بلیوں، کتوں اور پرندوں کی خوراک اور ایسی اشیا کی امپورٹ پر ڈالر خرچ کر رہے ہیں کہ ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ ہمارے طبقہ اشرافیہ کی خواتین عمومی شاپنگ کے لئے دبئی کا رخ کرتی ہیں اور وہاں جا کر ہزاروں نہیں لاکھوں ڈالر کی خریداری کرتی ہیں۔ صنعتی سازوسامان اور دفاعی ضروریات کے لئے زرمبادلہ کا خرچ کرنا درست لیکن دیگر اشیاء تعیش پر خرچ کر کے 54 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کھڑا کرنا ایک مجرمانہ فعل جس کی مذمت کی جانی ضروری ہے۔
ہماری آمدنی اور اخراجات میں اس قدر عدم توازن پیدا ہو چکا ہے کہ اسے اپنے ذرائع، یعنی دستیاب وسائل سے پورا کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے اس کے لئے ’’فائر فائٹنگ‘‘ کافی نہیں ہو سکتی بلکہ پائیدار بنیادوں پر طویل مدتی پلاننگ کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام بھی اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے ہم نے اچھی بھلی چلتی نوازشریف کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ تمام ریاستی اداروں کو یکسو کر کے نوازشریف کو منظر سے ہٹا دیا گیا پھر اپنے منظور نظر عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا 2018 میں سیاسی جوڑتوڑ اور پکڑ دھکڑ کے ذریعے عمران خان کو ایوان اقتدار تک لے جایا گیا انہوں نے اپنے 44 ماہی دور اقتدار میں معیشت اور سیاست کی رج کر مٹی پلید کی۔ پھر انہیں منظر سے ہٹانے کے لئے معاملات طے کئے گئے اس عمل میں ایک بار پھر سیاست اور معیشت کی مٹی پلید ہوئی۔ آج معیشت کی صورتحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ جاری بات چیت حتمی طور پر طے نہ ہوئی اور انہوں نے ہمارے پیش کردہ بجٹ سے اتفاق نہ کیا تو ہماری معیشت ڈیفالٹ کر جائے گی۔ یہ بات سیاسی نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی ذمہ دار شخص نے کہا ہے ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ دوسری طرف سیاست کی صورتحال یہ ہے کہ صدر مملکت، جسے ریاست کا نمائندہ ہونا چاہئے وہ ایک ادنیٰ درجے کے پارٹی ورکر کے طور پر ایکٹ کر رہے ہیں، سپیکر پنجاب اسمبلی اس سے پست درجے کا رول ادا کر رہے ہیں گو ان کی سیاسی قلابازیوں کے باعث ان کی ننھی منی پارٹی (ق لیگ) دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ عمران خان اپنی پارلیمانی شکست کے زخم چاٹ رہے ہیں وہ آگ اگل رہے ہیں کبھی ایٹم بم گرانے کی باتیںکرتے ہیں اور کبھی ملک کے تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانے کی ’’پیش گوئیاں‘‘ کرتے نظر آ رہے ہیں۔عالمی سطح پر پٹرولیم کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور اجناس کی منڈی میں گڑبڑ کے بھی ہماری قومی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ روس یوکرین کی جنگ بند ہوتی نظر نہیں آ رہی لیکن ہم ہیں کہ سیاسی مہم جوئی سے باز ہی نہیں آ رہے ہیں اور ہماری معیشت کی نبضیں ڈوبتی چلی جا رہی ہیں۔ مہنگائی جان بلب سطح تک آن پہنچی ہے۔ قدر زر میں گراوٹ اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے ایسے ماحول میں شہباز شریف کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت کے معاشی حکمت کار مفتاح اسماعیل نے ممکنہ حد تک ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے جس میں بہت سے طبقات کے لئے ریلیف بھی ہے، خوشی بھی ہے، سرکاری ملازمین، پنشن داروں، دکانداروں، صنعتکاروں اور دیگر طبقات کے لئے ریلیف اور مراعات کے اعلانات ناامیدی کی گھنی فضا میں، امیدوخوشی کی ایک چمک ہے جس کے لئے ہمیں انہیں مبارکباد دینی چاہئے۔ باقی بجٹ پر تنقید و تنقیص کے لئے عمران خان اور ان کے حواری ہی کافی ہیں۔
بجٹ 2022-23: خوشگوار ہوا کا جھونکا
09:01 AM, 12 Jun, 2022