پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ میں خلاف ضابطہ بھرتیاں اور کروڑوں کے گھپلے

12:26 PM, 12 Jun, 2018

لاہور: پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیوٹ کے معاملات کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے کوکب جمال زبیری پر مشتمل عدالتی کمیشن نے جزوی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی کے ایل آئی میں طریقہ کار کے برعکس بھرتیاں کی گئیں۔ ڈاکٹر سعید اختر، ان کی بیگم اور زیادہ تر سٹاف الشفاء ہسپتال سے لیا گیا۔ سابق وزیراعلی پنجاب نے ہسپتال کا تین مرتبہ افتتاح کیا اور تشہیر کے لئے دس کروڑ روپے صرف کئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نجی سوسائٹی بنا کر حکومت پنجاب سے غیر قانونی طور پر عطیات وصول کئے۔ انفراسٹرکچر ڈویلپمنت اتھارٹی پنجاب قائم کر کے پیپرا رولز نظرانداز کئے اور تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا۔ پی کے ایل آئی میں میڈیکل آلات کی خریداری کا ٹھیکہ بھی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دے دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی تعمیر اور میڈیکل آلات کی خریداری کا ابتدائی ٹھیکہ تیرہ ارب کا تھا جسے بڑھا کر انیس ارب کر دیا گیا۔ مزید چار ارب روپے مانگے جا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنت اتھارٹی نے غیر قانونی طور پر نجی کمپنی زیڈ کے بی کو آٹھ ارب کا غیر قانونی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا۔ پے کے ایل آئی کے بورڈ آف گورنر کے ممبر ظاہر خان زیڈ کے بی کا مالک ہے۔ زیڈ کے بی نے میٹرو بس کے لئے پنجاب میں تعمیراتی ٹھیکے حاصل کئے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنت اتھارٹی نے ساڑھے دس ہزار مربع فٹ کے حساب سے تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کیا۔ مارکیٹ ریٹ سے چالیس گناہ زائد پر تعمیراتی ٹھیکہ فراہم کیا گیا۔ طے شدہ معاہدے کے تحت انفراسٹرکچر ڈویلپمنت اتھارٹی نے ہسپتال کو ایک سو اکتیس بیڈ مکمل کر کے دینے تھے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ معاہدے کے برعکس اکتیس دسمبر دو ہزار سترہ تک سولہ بیڈ دئیے۔ معاہدے کے برعکس بارہ میں سے دو آپریشن تھیٹر فراہم کیے جو کہ غیر معیاری ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ناقص میٹریل اور معاہدے کی خلاف ورزی کے باوجود پی کے ایل آئی نے اسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پیسوں کی مکمل ادائیگی کر دی۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف انفراسٹرکچر ڈویلپمنت اتھارٹی اور پی کے ایل آئی بورڈ آف گورنر کے چئیرمین تھے ۔ شہباز شریف کی منظوری سے معاہدہ جات طے پائے، رقوم کی ادائیگی کی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی کے ایل آئی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے اسی کروڑ کی رقم کی ادائیگی کے باوجود فیز ون بھی مکمل نہیں کیا جا سکا۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پی کے ایل آئی، زیڈ کے بی اور اندرون بیرون آڈیٹرز کی چھان بین کی جائے۔ عدالتی کمیشن کو ہسپتال اور کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔ عدالتی کمیشن کی معاونت کے لئے ماہرین کی خدمات دی جائیں۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

مزیدخبریں