سیمی کنڈکٹرز چپس کا 19.5 ارب ڈالر کا معاہدہ منسوخ: انڈیا  کاپیدوار کے اہداف سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان

سیمی کنڈکٹرز چپس کا 19.5 ارب ڈالر کا معاہدہ منسوخ: انڈیا  کاپیدوار کے اہداف سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان

تائی پے: انڈیا کے ساتھ  تائیوان نے سیمی کنڈکٹرز چیس کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے ، تاہم انڈیا نے پیدوار کے اہداف سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کیا ہے۔ تائیوان کی کمپنی فوکس کون ٹیکنالوجی نے انڈیا میں سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار کے لیے انڈین کمپنی ویدانتا کے ساتھ ریاست گجرات میں 19.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے۔معاہدے کی منسوخی سے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے انڈیا کو سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار کے مرکز بنانے کے منصوبے کو دھچکہ لگ سکتا ہے تاہم انڈین حکومت نے کہا ہے کہ تائیوان کی کمپنی کی جانب سے انڈین کمپنی کے ساتھ معاہدے سے دستبرداری سے انڈیا سیمی کنڈکٹر کی پیدوار کے اہداف سے دور نہیں ہو گا۔


انڈیا کے وزیر مملکت برائے الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی راجیو چندرشیکھرن نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے دونوں کمپنیاں اپنی حکمت عملی پر آزادانہ طور پر کام کر سکیں گی۔راجیو چندرشیکھرن نے ایک ٹویٹ میں کہا انڈیا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں گزشتہ 9 سال میں الیکٹرانکس کی پیداوار اور گزشتہ 18 ماہ میں سیمیکون کی پیداوار میں نمایاں ترقی کی ہے۔فوکس کون کے ویدانتا سے 19.5 ارب ڈالر کے معاہدے کو سیمی کنڈکٹر کی پیداوار کے لیے دنیا کا سب سے بڑا معاہدہ سمجھا جا رہا تھا۔


فوکس کون نے انڈیا میں ویدانتا کے ساتھ اپنے جوائنٹ وینچر کو آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔فوکس کون نے کہا اس نے ویدانتا کے ساتھ ’سیمی کنڈکٹر کے آئیڈیا کو حقیقی شکل دینےکے لیے کام کیا لیکن اب باہمی طور پر مل کر کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ویدانتا نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے وزیر اعظم مودی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیا ہے۔


فوکس کون دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے ایک ہے اور ایپل کے آئی فونز کی مینوفیکچرنگ کے لیے مشہور ہے۔ سیمی کنڈکٹر چپس کی دنیا بھر میں پیداوار تائیوان جیسے مخصوص ممالک تک محدود ہے۔ انڈیا نے تاخیر سے ہی اس میدان میں قدم رکھنے کی کوشش کی ہے۔انڈیا نے سیمی کنڈکٹر پلانٹس لگانے کے لیے کمپنیوں سے ایک بار پھر درخواستیں طلب کی ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سیمی کنڈکٹر پروڈکشن پلانٹ منصوبے کا سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اس میں شامل دونوں کمپنیوں کو چپ کی پیداوار کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔

مصنف کے بارے میں