لاہور : سینئر صحافی سلیم صافی کے مطابق ی ڈی ایم اتحاد عملاً ختم ہو چکا ہے۔ اس مردے گھوڑے میں اب دوبارہ جان نہیں ڈالی جاسکتی اور یہ بات واضح ہے کہ اگلے انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے مفاد کے مطابق نئی صف بندی کرے گی۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں لکھا ی ڈی ایم کا بنیادی محرک زرداری صاحب تھے لیکن بڑی جماعت کا سربراہ ہونے کے ناطے زرداری کو سربراہ بنانا ، نون لیگ اپنے لئے خطرناک سمجھتی تھی اور میاں شہباز شریف کو سربراہ بنانا پیپلز پارٹی اپنے لئے خطرناک سمجھتی تھی، اس لئے قیادت کیلئے قرعہ فال مولانا فضل الرحمان کے نام نکل آیا۔پی ڈی ایم اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان دونوں کے مقابلے میں ایک موثر اتحاد بن گیا کیونکہ اس میں دو قومی جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی اور جے یو پی جیسی مذہبی اور بی این پی یا اے این پی جیسی قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں۔
سینئر صحافی نے لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ہمہ پہلو اور قومی اتحاد نے مختصر وقت میں عمران خان اور انکےسرپرستوں کے اوسان خطا کردیئے چنانچہ اسٹیبلشمنٹ نے اسے توڑنے کیلئے کمر کس لی۔ زرداری صاحب سے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں نے رابطے شروع کئے اور حتمی ڈیل بلاول بھٹو کو گلگت بلتستان سے بلا کر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں کے ساتھ خفیہ ملاقات میں ہو گئی۔ یوں پیپلز پارٹی نے کچھ ایشوز کو بہانہ بنا کر پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا جبکہ اے این پی زرداری صاحب کی دوستی میں نکل گئی ۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے اپنی اہمیت قائم رکھنے کیلئے اس کے بعد پی ڈی ایم کو قائم رکھا۔پھر اچانک وہ وقت آگیا کہ فوج نے عمران خان کی ناجائز سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لئے اور یوں بیک وقت زرداری صاحب اور مولانا صاحب کے دل اقتدار کیلئے مچلنے لگے ، حالانکہ اصولی طور پر ناجائز اسمبلی کو دوام دینا غیراصولی فعل تھا۔ مولانا صاحب اتنے جذباتی ہوگئے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ساتھ حکومت سازی کرتے وقت پی ڈی ایم کو بھی بھول گئے۔ اس مشاورت میں انہوں نے اپنے سینئر نائب صدر آفتاب احمد خان شیرپاو،شاہ اویس احمدنورانی اور دیگر ممبران سے پوچھا تک نہیں اور دونوں بڑی جماعتوں سے اپنے لئے مرکز میں بھی استحقاق سے زیادہ حصہ لیا اور پختونخوا کی گورنرشپ بھی لے اڑے۔پختونخوا کی نگران حکومت بھی عملاً جے یو آئی کے لوگوں پر مشتمل ہے اور اہم فیصلے گورنر حاجی غلام علی، سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور مولانا کے بھائی کرتے ہیں ۔
سینئر صحافی کے مطابق وزیراعلیٰ اعظم خان چونکہ ضعیف اور حد سے زیادہ شریف آدمی ہیں ، اس لئے وہ پریشان اور تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ مجبوراً خیبر پختونخوا حکومت میں اے این پی ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں (سوائے پی ٹی آئی کے) کو نمائندگی دی گئی ہے ، اس لئے ہر معاملے کو ایک، ایک طرف اور دوسرا ، دوسری طرف کھینچ رہا ہے ۔نتیجتاً اس وقت کی خیبر پختونخواکی نگران حکومت جو عملاًجے یوآئی کی حکومت ہے، صوبے کی تاریخ کی بدترین حکومت ثابت ہوئی۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کی حکومت تاریخ کی بدترین حکومت سمجھی جاتی تھی لیکن نگران حکومت اب اس کے گناہ بخشوا رہی ہے۔ دوسری طرف کرپشن کے بھی ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔
یوں اب مسلم لیگ(ن) بھی پریشان ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی کیونکہ خیبر پختونخوا کو اس وقت جنگ کا سامنا ہے اور اندازہ اس سے لگائیے کہ گزشتہ تین روز سے کرم ایجنسی میں بھرپور جنگ جاری ہے لیکن صوبائی حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا ۔چنانچہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ پختونخواکے موجودہ سیٹ اپ سے نالاں نظر آتی ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان سے تنگ ہے ۔ اے این پی تو کھل کر سامنے آگئی ہے اور ایمل ولی خان نے گورنر غلام علی کی حمایت کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے انہیں ہٹانے کا مطالبہ دہرانا شروع کردیا ہے۔
دوسری طرف مولانا یہ چاہتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں پختونخوا اور بلوچستان ان کی جھولی میں ڈال دیا جائے لیکن نگران حکومت کی بدترین کارکردگی اور کرپشن کی وجہ سے ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) اور بالخصوص اے این پی دونوں صوبوں کو مولانا کیلئے ترنوالہ بنانے کے حق میں نہیں۔ میرے نزدیک اصل تنازعہ یہ ہے اور دبئی میٹنگ پر اعتراض کرکے مولانا اس کیلئے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنانا اور اپنے گورنر کو بچانا چاہتے ہیں ۔ ورنہ تو دبئی میٹنگ پر ان کے اعتراض کا اس لئے کوئی جواز نہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں کی میٹنگ تھی۔ دوسری طرف ان کے پاس اس اعتراض کا اس لئے بھی جواز نہیں کہ جب وہ حکومت سازی میں اپنے لئے استحقاق سے زیادہ حصہ لے رہے تھے تو پی ڈی ایم کے کسی اور رہنما کو شاملِ مشاورت نہیں کیا۔ پھر مرکز اور پختونخوا میں حکمرانی کرنے میں اس قدر مگن ہو گئے کہ کئی ماہ تک پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس تک نہ بلا سکے۔ اس لئے میرے نزدیک پی ڈی ایم اتحاد عملاً ختم ہو چکا ہے۔ اس مردے گھوڑے میں اب دوبارہ جان نہیں ڈالی جاسکتی اور یہ بات واضح ہے کہ اگلے انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے مفاد کے مطابق نئی صف بندی کرے گی۔