خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں مگر بیچنا معیوب، خواب دیکھنے والے طالبان اقتدار نے خواب دیکھے جانتے تھے تعبیر تلخ ہوگی لیکن ہوس اقتدار، مارکیٹ میں چلے آئے اور خواب بیچنے لگے، خواب بڑے مہنگے بکے قرضوں میں 13 ہزار ارب روپے کا اضافہ، ملکی قرضے 37 ہزار 997 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اندرونی قرضوں میں 12 فیصد اضافہ حجم 2675 ارب ہوگیا۔ ہر سال 29 ارب کا قرضہ، بیرونی قرضوں پر 3 سال قبل 1363 ارب سود تھا اب 3 ہزار 63 ارب دینا ہوگا۔ اس دوران بجٹ خسارہ700 فیصد سے بڑھ کر 1479 ارب 80 کروڑ روپے ہوگیا۔ خواب بڑے سہانے لیکن بڑے مہنگے، بڑے دل فریب و دلکش لیکن جاں لیوا۔ لوگ انہی خوابوں پر مر مٹتے ہیں اور شدید موسموں کی سختیوں کے باوجود لائنوں میں کھڑے ہو کر خوابوں کے سوداگروں کے تھیلے اور زنبیلیں ووٹوں سے بھر دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام خواب خریدتے ہیں، تعبیر نہیں پوچھتے۔ تعبیر پوچھ رہے ہوتے تو خواب بیچنے والوں اور بے تکان اپنی مٹی کو سونا کہنے والوں کو دھوکہ دہی کا موقع نہ ملتا۔ جن ملکوں میں عوام اپنے حکمرانوں سے خوابوں کی تعبیر مانگتے اور ان کا احتساب کرتے ہیں وہاں جمہوریت برہنہ سر سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں ڈنڈے نہیں کھاتی۔ تعبیر ڈھونڈنے والے ملکوں میں جمہوریت مستحکم اور جمہوریت سے جڑے عوام خوش حال ہیں۔ یہاں کیا ہوتا ہے لیڈر خوش نما خواب بیچنے نکلے، بینڈ باجوں کے ساتھ خوابوں کی تفصیلات بتائیں عوام کو خوش نما منظر دکھائے، 4 ماہ سے زائد عرصہ تک لوگوں کو باور کرایا گیا کہ خوابوں کی تعبیر ریاست مدینہ کی شکل میں رونما ہوگی، جہاں سب کو بنیادی حقوق حاصل ہوں گے، کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ ہر فرد کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ 50 لاکھ مکانات ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی معیشت مضبوط ہوگی۔ کسی سے قرضہ نہیں لیں گے، خواب دل و دماغ میں جلد سما جاتے ہیں، لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ پورا ملک 5 سال کے لیے خوابوں کے سوداگروں کے حوالے کردیا جس نے خوابوں کی تعبیر دینے کی تگ و دو کی تھی اس کی چارپائی الٹ دی گئی۔ باہر بیٹھا واویلا کر رہا ہے ”میں منجھی کتھے ڈاہواوں مین کیہڑے پاسے جاواں“ 5 سال کا ٹھیکہ، پروانہ راہداری ملتے ہی شمع کے گرد پروانوں کا ہجوم، پروانے بھی مفاد پرست سارے مخدوموں، وڈیروں اور الیکٹیبلز نے اپنے خواب ایک خواب میں ضم کر دیے اور یک جاں کئی قالب ہو کر صدقے واری جانے لگے، کہاں کہاں کے اتحادیوں نے خیمے میں پناہ لی۔ سارے کامیاب، دس بارہ کی ضرورت تھی پندرہ بیس آگئے،کیوں نہ آتے وہ بھی اپنے اپنے خواب بیچنے نکلے تھے۔ ہر پانچ سال بعد نکلتے ہیں اور شاہراہ اقتدار پر گامزن قافلے میں شامل ہوتے ہیں۔”من تو شد م تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی۔ تاکس نہ گویئدبعد ازاں من دیگرم تو دیگری“۔ بھولے بادشاہ تھے نہ راہ بھولے تھے قابل قبول تھے قبول کرلیے گئے، خیمے بدلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل، شرم و حیا، رواداری و مروت کس چڑیا کا نام ہے۔
ہوائی باتیں نہیں لوگوں کے پاس اعداد و شمار موجود ہیں۔ 2002ء کے انتخابات میں 140 ارکان اسمبلی ن لیگ کو چھوڑ کر مشرف کی بنائی ق لیگ میں شامل ہوگئے۔ 2008ء کے الیکشن میں 80 ارکان نے ق لیگ کو تین طلاقیں دیں اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2013ء کے انتخابات میں 121 ارکان اسمبلی نے پیپلز پارٹی کو الوداع کہا اور نواز شریف سے آن ملے 2018ء میں جہاں دیکھی توا پرات وہیں گزاری ساری رات سارے پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل ہیں۔ قرآنی حکم لا الیٰ ھولاء ولا الیٰ ھولاء ادھر نہ ادھر بیچ میں معلق، ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں اقتدار کی نوید لیکن آخرت میں سخت وعید، سہانے خوابوں کی تعبیر سامنے آئی تو پریشانی لاحق، ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہی کچھ۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا“ یہ معمہ بھی دیر میں کھلا کہ معیشت تباہ حال، خزانہ خالی، عوام کو کیا دیں گے، خزانہ کہاں گیا؟ زر مبادلہ، بلند ترین شرح نمو، سہانے خواب بکھرنے لگے، نیندیں ٹوٹنے لگیں۔ سارے خواب کرچیاں کرچیاں ہو کر آنکھوں میں چبھنے لگے ہیں۔ عوام ریاست مدینہ کی شاہراہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بے حال ہوگئے اعلان ہوا پناہ گاہیں اور لنگر خانے بنا دیے ہیں۔ شیر شاہ سوری کی روح بھی کیا یاد کرے گی آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ پناہ گاہیں اور لنگر خانے ہیروئنچیوں کا گڑھ بن گئے۔ نشہ میں چور سارے”جہاز“ یہیں لینڈ کرنے لگے۔ رکشہ ڈرائیوروں کا قیام دن بھر کے غم دھوئیں میں اڑاتے ہیں۔ 96 فیصد افراد منشیات کے عادی، حکومت لال بھبھوکا، برہمی سے کیا ہوتا ہے، جن کے خواب ٹوٹے ہیں وہ مہنگائی سے نڈھال، لوڈشیڈنگ سے پریشان، کوئی سمت بھی تو ہو ”کہ اس کمرے کا منظر آج بھی برسوں پرانا ہے“۔ ایک دل جلے نے کہا تھا ”داستانوں کے سبھی کردار گم ہونے لگے۔ آج کاغذ چنتی پھرتی ہے پری بغداد کی“ اسے بھی بد قماش اور اوباش حیوان صفت اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ سچ کہا گیا کہ آٹا چینی مہنگی کر کے سستی کاروں کے خواب بیچنے لگے ہیں۔ جسے روٹی نہیں ملتی کیک کھائے موٹر سائیکل میسر نہیں پندرہ سترہ لاکھ کی گاڑی خرید لے بجٹ میں غریبوں پر ٹیکس گاڑیاں سستی، کن کے خواب پورے ہوئے؟ کون صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں۔ یہ وہی کروڑوں لوگ ہیں جو اپنی پلکوں پر سہانے خواب سجائے سڑکوں پر رقص کیا کرتے تھے آج غربت کی لکیر سے نیچے جانے پر خود کشی پر آمادہ ہیں، پہلے معیشت کا جنازہ نکلا پھر ثقافت تباہ ہوئی آخر میں اخلاقیات برباد، منتخب ارکان بھی گالم گلوچ پر اتر آئے، قوم کویہی تین خواب دکھائے گئے تینوں کی تعبیر بھیانک نکلی،کہتے ہیں ترقی و خوشحالی کے لیے عزم مصمم،واضح ویژن اور مضبوط با کردار تجربہ کار ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تینوں غائب، عزم مصمم کو این آر او بہا لے گئے۔ واضح ویژن کو یوٹرن نے تباہ کردیا مضبوط با کردار اور تجربہ کار ٹیم کی روز اول سے کمی تھی ورنہ 3 سالوں میں چار وزرائے خزانہ بدلنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ 23 کروڑ عوام کو آج بھی یہی گلہ ہے کہ ”کچھ خواب سجائے تھے تعبیر نہیں ملتی، شنید ہے کہ نئے ٹھیکیداروں کی تلاش ہے، ڈھیل دی جا رہی ہے ضمانتیں ہو رہی ہیں، نیب کے دائرہ کار کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے۔ ارد گرد کے لوگ اس ڈھیل کو ڈیل کا نام دیتے ہیں۔ سینہ گزٹ کے مطابق پیپلزپارٹی پر امید، نوجوان بلاول نے بھی سہانے خواب دیکھنے اور عوام کو دکھانے شروع کردیے سب کو روزگار دیں گے 120 فیصد تنخواہیں بڑھائی تھیں روٹی کپڑا مکان سب کچھ ملے گا، اتنے وعدے اتنے خواب پنجاب کیوں مایوس ہوا؟ لیڈر ڈیل سے پہلے یا ڈیل کے بعد اس مسئلہ پر سوچ رہے ہوں گے۔ ن لیگ بدستور عوامی رابطوں میں مصروف لیکن مزاحمت اور مفاہمت کے مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے سیانے کہتے ہیں کہ ووٹ بینک بڑھ رہا ہے لیکن ابا جی باہر بیٹھے فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ مزاحمت یا مفاہمت میں سے کون سا مہرہ آگے بڑھائیں تاکہ شہ کو مات ہو، مزاحمت کے نظریہ پر مریم نواز کاربند، مفاہمت پر شہباز شریف بضد آخری فیصلہ ابو جی کے ہاتھ لیکن خوابوں کو تعبیر دینے والے ابھی تک خاموش، سمندر کی تہہ میں کتنے طوفان کروٹیں بدل رہے ہیں۔ کنارے پر کھڑے ہو کر نظارہ کرنے والے ہم جیسوں کو کیا خبر۔ ”ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد“، عمر گزر گئی آج تک سیاسی ٹھیکیداروں کی بندر بانٹ نہ سمجھ سکے، بس غریب عوام کی طرح ملکی خوشحالی کے خواب پلکوں پر سجائے بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ اس ملک کو قائم و دائم رکھے، چراغوں کی لویں کاٹنے والوں کو بھی قدرت کے کرشموں سے ڈرنا چاہیے۔