پُرامن افغانستان، پُرامن پاکستان

11:25 AM, 12 Jul, 2021

 افغانستان سے امریکہ نکل رہا ہے اور پاکستان کے لیے مزید خطرات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان جس راستے پرچل رہا ہے اس کے دونوں جانب کھائی ہے اور بڑی احتیاط سے آگے جاناہے ورنہ گرنے کی صورت میں موت یقینی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ افغانستان امریکہ کے لیے دوسرا ویت نام ثابت ہواہے۔ امریکی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ ان کے ہالی ووڈ کے ہیرو جب پردہ سکرین سے باہر نکل کر تورا بورا کے پہاڑوں اور سنگ لاخ درو ں میں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے جی پی ایس سسٹم ناکام ہو چکے ہیں اب انہیں اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہے۔ اس تمام عرصہ میں انہو ں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کی مگر افغان بڑی باہمت قوم ہے اس سے تمام تر دہشت گردی کے باوجود اپنے ملک کو تعمیر نو کے کام کو آگے بڑھایا۔ امریکہ اور اتحادی افواج کا راستہ روکا اور انہیں صرف اپنے فوجی اڈوں تک محدود رکھا۔آج امریکی صدر کو عوام کے سوالات کا سامنا ہے لوگ اپنے ہلاک ہونے والے بچوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہونے والے امریکی صدر جوبائیڈن کی گفتگو نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے مزید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکی اس بار ان حالات میں واپس جار ہے ہیں کہ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے لوگ ہی کریں گے۔ امریکہ وہاں تعمیر نو نہیں کرے گا۔ ان کا یہ بیان امریکی انتظامیہ کی لاچاری کے ساتھ ساتھ اس حکمت عملی کا بھی آغاز ہے کہ افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑو اور اپنی فکر کرو۔افغانستان امریکی معیشت کے ٹریلین آف ڈالرز ڈکار گیا۔ اتنا پیسہ ویسے اس ملک پر لگایا جاتاتو امریکہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو جاتا۔
افغانستان کے بگرام بیس کو خاموشی سے خالی کر دیا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ امریکی اس بات سے خوف زدہ تھے کہ کہیں افغانستان سے نکلتے ہوئے ان پر حملے نہ ہوں۔ امریکیوں کا طمطراق ہیلی کاپٹروں کی دھول میں ہوا میں اڑ گیا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اگست کی ڈیڈ لائین دے رکھی ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا ہو جائے گا۔اس سے پہلے امریکی صد ر نے کہا تھا کہ ستمبر تک وہ افغانستان کو خالی کر دیں گے۔واضح رہے کہ سابق امریکی صدر نے افغان طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ مئی 2021تک امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی مگر موجودہ صدر نے اس تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ستمبر تک افغانستان سے نکل جائیں گے مگر اب 31اگست تک امریکی آپریشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ امریکی تیزی سے وہاں سے نکل رہے ہیں اور اسی طرح افغانستان میں موجود امریکی اتحادی بھی اس ملک سے نکل رہے ہیں دوسری طرف افغان طالبان ایک سے دوسرے علاقے پر اپنی حکمرانی قائم کرتے جا رہے ہیں۔ان اعلانات کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 650سے 1000امریکی فوجی مکمل انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں گے اور ان کا مقصد امریکی سفارتخانے، کابل ائیرپورٹ اور دوسری سرکاری تنصیبات کی حفاظت کرنا ہو گا۔ طالبان اسے کسی طور قبول نہیں کریں گے۔ امریکی سفارتخانے کے اندر تو 
امریکی فوجی تھوڑی تعداد میں موجود رہ سکتے ہیں مگر دوسری تنصیبات کی حفاظت کے نام پر امریکی فوجیوں کی موجودگی کسی بھی صورت طالبان کو گوارہ نہیں ہو گی۔امریکی انخلا کے ساتھ ساتھ افغان فوجیوں کے دوسرے ممالک کو فرار کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں پناہ حاصل کر رہے ہیں۔ ایسا حکمت عملی کے تحت بھی ہو رہا ہے اور یہ وسطی ایشیائی ریاستیں مناسب وقت پر ان فوجیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر یں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغان کنٹریکٹر، ترجمہ کرنے والے اور دوسری خدمات دینے والے بھی عدم تحفظ سے دوچار ہو گئے ہیں اگرچہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ انہیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور کوئی انہیں تنگ نہیں کرے گا مگر اس انخلا کی آڑ میں یہ افغان بھی دوسرے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔ ا مریکہ نے پہلے ہی ان لوگوں کے لیے 2500خصوصی ویزے دینے کا اعلان کیا ہے اور ان میں سے آدھے افراد کو یہ ویزے مل چکے ہیں۔ اسی طرح جرمنی اور برطانیہ بھی افغانوں کو ویزے جاری کریں گے۔امریکی افغان حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ان کی امداد جاری رکھیں گے مگر یہ سوال ہر سطح پر اٹھایا جار ہا ہے کہ کیا اشرف غنی کی حکومت طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے سے روک سکے گی۔ افغان فوج میں پہلے سراسیمگی پھیل چکی ہے اور طالبان جس علاقے کا رخ کرتے ہیں، افغان فوج ان کے ساتھ مل جاتی ہے یا افغان فوجی اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔طالبان ایک ایک انچ پر بغیر لڑے ہی قابض ہوتے جار ہے ہیں۔ طالبان بھی اس دفعہ ایک مختلف حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ افغان طالبان کے کمانڈر ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب کے گرد اکٹھے ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں پشتون کی اکثریت ہے مگر فارسی بان بھی بڑی تعداد میں ہیں اور انہیں باہر رکھ کر پورے افغانستان پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ ان کے سیاسی اور فوجی دھڑوں کے ساتھ طالبان کو ہاتھ ملانا ہو گا۔ عبداللہ عبداللہ اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کس کے ساتھ اپنا ہاتھ ملاتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اس خدشہ کو نا ممکن قرار دے رہی ہے کہ کابل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، ان کا خیال ہے کہ جس افغان فوج کو انہو ں نے تربیت دی ہے وہ افغان طالبان کا راستہ روک لیں گے مگر اس کے باوجود اگر کابل طالبان کے زیر تسلط آ جاتا ہے تو امریکی کچھ نہیں کریں گے۔ اس پیغام نے افغان فوج کے حوصلوں کو پست کیاہے کہ جو کرنا ہے آپ لوگوں نے خود کرنا ہے، امریکہ ان کی مد دکو نہیں آئے گا۔ وہاں کیا ہونا ہے اتحادی حکومت بننی ہے یا کچھ اور ہونا ہے اور افغانوں نے خود طے کرنا ہے یا افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو۔ اشرف غنی پرامید ہیں کہ ان کی فوج طالبا ن کا مقابلہ کرے گی مگر وہ تو بغیر لڑے اپنے علاقے طالبان کے سپرد کر رہے ہیں یا ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افعانستان میں ہونے والی خون ریزی میں طالبان کو ملوث کرنے کو سازش قرار دیا ہے او رکہا ہے کہ ہم تو مذاکرات کے ذریعے مختلف علاقوں کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں اور خون ریز ی سے گریز کر رہے ہیں۔سہیل شاہین نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جس علاقے میں جاتے ہیں وہاں کے افغان فوجی لڑنے سے انکار کر رہے ہیں تو ایسے میں لڑائی اور خون ریزی کیوں کی جائے؟
آنے والے دن اس خطے کے عوام کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو اشرف غنی اور طالبان دونوں کے ساتھ مل پرامن افغانستان کے کسی حل کو تلاش کرنا چاہیے۔ یقینی طور پر طالبان کو اخلاقی فتح مل چکی ہے اور ان کی بھی یہ خواہش ہو گی کہ اس بار ایک پرامن افغانستان پر وہ اپنی حکومت قائم کریں۔ افغانستان میں انتشار کسی کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اس انتشار کو بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہیے اور پاکستان کو تو خاص طور پر نہیں۔ پر امن انتقال اقتدار کے لیے پاکستان میں موجود ان گروہوں اور افراد کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جن کا تعلق افغانستان میں کسی بھی دھڑے سے ہیں۔ اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پر امن افغانستان ہی پر امن پاکستان کی ضمانت ہے۔ افغانستان میں موجو د امریکی اور بھارتی لابیاں اپنا کام دکھانے کی کوشش کریں گی مگر ایک منظم حکمت عملی سے ان کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں