واشنگٹن:امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس نے باور کرایا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات کی بہتری سے قبل تہران میں نظام کی تبدیلی عمل میں آنا چاہیے۔ایران پاکستان اورامریکا میں سفیروں کو قتل کرنے لیے ایجنٹوں کو بھیج رہا ہے ۔غیرملکی خبررساں ادارے سے بات چیت میں انہوں نے واضح کیا کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں مگر ایسا صرف ایران میں نظام کی تبدیلی کے راستے ہوگا۔
امریکی وزیر دفاع کے مطابق ایران نے گزشتہ برسوں کے دوران حوثیوں کو بیلسٹک میزائل فراہم کیے۔جیمس میٹس کا کہنا تھا کہ نظام کی تبدیلی اور ایرانی عوام کے اس برائی سے چھٹکارہ پانے سے قبل ایران کے ساتھ کسی قسم کی بھی قربت ایک انتہائی مشکل امر ہوگا۔ مرشد اعلی علی خامنہ ای یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انتخابات میں کون حصہ لے گا یہ کوئی جمہوریت نہیں۔
امریکی وزیر دفاع نے باور کرایا کہ جب وہ امریکی مرکزی کمان کے کمانڈر تھے تو اس وقت بھی ایران اور اس کا نظام ان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ جیمس میٹس پہلے ہی ایران کو دہشت گرد تنظیم داعش سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔امریکی وزیر دفاع نے انکشاف کیا کہ وہ ایران کی جانب سے عراق میں ملیشیاوں کو راکٹوں کے ارسال کیے جانے کے بعد تہران کے خلاف فوجی جوابی کارروائی کا ارادہ رکھتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ راکٹوں کی فراہمی کے نتیجے میں 2011 میں کئی امریکی فوجی ہلاک ہوئے مگر سابق صدر باراک اوباما میٹس کے ارادے کے بیچ حائل ہو گئے۔
جیمس میٹس کے مطابق مسئلہ ایرانی عوام کے ساتھ نہیں بلکہ ایرانی حکومت کے ساتھ ہے جو مسلسل اپنے عوام کو کچلنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ایران کی جانب سے پاکستان اور امریکامیں سفیروں کے قتل کے لیے ایجنٹوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ وہ لبنانی تنظیم حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کے نام سے معروف باغی ٹولے کو میزائل فراہم کر رہا ہے جس نے یمن میں خون کی ندیاں بہا دیں۔
امریکی وزیر دفاع کے مطابق اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ایران مشرق وسطی کے امن و استحکام کے واسطے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ نظام ایک انقلابی تحریک کی طرح کام کر رہا ہے۔ اپنے عوام اور ان کے مفاد کے لیے بطور ریاست اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایران میں نئی نسل ملک پر حکومت کرنے والے شدت پسند افکار کی سخت مخالف ہے اور وہ امریکا سے ٹکراونہیں چاہتی۔
میٹس نے ایران میں حالیہ حکومتی نظام کو ایک قاتل نظام قرار دیا جس نے چند برس پہلے ملک میں اٹھنے والی سبز تحریک کے دوران ایرانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرنے کے علاوہ بہت سے نوجوان کارکنوں کو پابندِ سلاسل کیا۔