میرا آج کا کالم ریاست Utopia کے باسیوں کے بارے میں ہے جہاں سب اچھے کی آواز ہوتی ہے۔ اس ریاست کا مقصد سب کے لیے قانون و انصاف، روٹی کپڑا و مکان، گھر، تفریح، امن، مساوات، مذہبی و اظہار رائے کی آزادی، علاج، روزگار، تعلیم اور دیگر تمام بنیادی سہولتیں بشمول ماں کی گود سے قبر تک سب کو مساوی میسر کرنا ہوتی ہیں۔ ہر طرف مثبت ہی مثبت ہوتا ہے منفیت یا یاسیت کی تصور ہی نہیں ہوتا یعنی راوی چین ہی لکھتا ہے۔ ایسے معاشرے میں تنقید یا اختلاف رائے رکھنا بھی ظلم ہی سمجھا جاتا ہے ایسے میں اگر کوئی حس تنقید آزماتا ہے تو اس پر قانون کی حد لاگو ہونا واجب ہو جاتی ہے۔
لیکن عملی طور پر اپنے اپنی تخلیق کے مقصد کے برعکس ریاست یوٹوپیا کے عوام اقتدار کی مسدس بشمول سیاستدان، عدلیہ، فوج، بیوروکریسی، مذہبی طبقے اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ اور شعبدہ بازیوں کی وجہ سے مایوسی کی انتہائی کیفیت تک پہنچ چکے ہیں۔ لوگ مٹھی بھر آٹے کے لیے لڑ مر رہے ہیں اور اپنے پیاروں کے لیے ایک نوالے کے حصول کے لیے حوا کی باپردہ و با حیا بیٹیاں بھی مردوں کے ہجوم میں اپنے پیاروں کے لیے ایک نوالے کے حصول کے لیے غوطہ زن ہیں با ریش بزرگ اپنے پیاروں کے لیے دو نوالوں کے لیے ڈکیتیاں کر رہے ہیں۔ چور لٹیرے سپاہ کی طاقت سے اقتدار پر قابض ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اقتدار کی مسدس کے کانوں پر جوں تک بھی نہیں رینگ رہی اور وہ اپنی ہی بسائی گئی بساط پر ایک دوسرے کو مات دینے اور اپنی خرمستیوں میں مصروف ہیں۔ ہر ادارہ انحطاط کا شکار ہے سیاستدان لوٹ مار اور ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے، عدلیہ انصاف سے عاری ہے، مذہبی طبقہ رواداری سے عنقا، قانون صرف عام عوام کے لیے اندھا، سرمایہ دار مزید ہوس زر میں مبتلا، سپاہ سیاست و اقتدار کے پیچھے دیوانی اور بیورو کریسی سب کو الو بنانے میں لگی ہے۔ سب کچھ دیکھتے بھالتے بھی یوٹوپین عوام بھی مزاحمت کے بجائے اسی پتلی تماشے کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ان ہی کے اشارے پر ناچ رہے ہیں کیونکہ ان میں مزاحمت کی سکت ہی نہیں اور وہ اب اپنے رب سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ دیکھا جائے تو یوٹوپین عوام میں مزاحمت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ بحیثیت قوم معاشرتی، سیاسی و معاشی طور پر شدید قسم کی یاسیت کا شکار رہتے ہیں۔ خود ہی ایک خواب ترتیب دیتے ہیں ایک بت تراشتے ہیں لیکن جب اس کی تعبیر بھی توقع کے مطابق نہیں آتی تو پھر مایوسیوں کے اندھیروں میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں اور اس بت کو پاش پاش کر کے نیا بنانا شروع کر دیتے ہیں لیکن اپنی منزل تو چھوڑیں اس تک جانے کے لیے صحیح رستے کا تعین بھی نہیں کر پاتے۔ اسی وجہ سے یہ اپنی سمت کا درست تعین کر سکے اور نہ ہی رہبر پا سکے۔ یوٹوپین ریاست میں دانشور
طبقہ بھی فکری طور پر بانجھ پن کا شکار ہے اور شاہ کے دربار تک رسائی ہی اس کی منزل ہے۔ کچھ درباری یوٹوپین دانشور اس فریب کے پیچھے بھاگنے کو امید کا نام دیتے ہیں اور بقیہ سراب۔ یوٹوپین بھی معصوم قوم ہیں جو نئے نئے افکار اور نئے نعروں کے پیچھے دیوانوں کی طرح بھاگتے اور ان پر من و عن یقین کر کے اپنی آئندہ زندگی ترتیب دیتے ہیں۔ اس قوم کی معصومیت تو دیکھیے کہ وہ کسی کا ماضی کھنگالے بغیر اس کا ڈالا ہوا نیا چارہ چگنا
شروع کر دیتی ہے اور ایک بار پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے دام صیاد میں آ جاتی ہے۔ اصل میں قوم کی اکثریت سب کچھ دیکھتے بھالتے سراب میں رہنا شروع کر دیتی ہے کیونکہ یوٹوپیا میں تنقید حرام ہے اور ہر شے کو مثبت لیا جاتا ہے اور تنقیدی سوچ رکھنے والوں غائب کر دیا جاتا ہے اور ایسے غائب لوگوں کے لے مسدس ریاست کا پسندیدہ مشغلہ بے لباسی ہے اور عزت نفس کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ یوٹوپین عوام ایک بات سیکھ چکے ہیں کہ کوئی ”غیر سیاسی“ نہیں ہوتا۔
اب قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ان سب حالات کا ذمہ دار اور قصوروار کون ہے میرے خیال میں اس کے ذمہ دار خود اس حالت میں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں جو حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کے بجائے ایک دکھائی گئی خیالی دنیا کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یوٹوپیائی سوچ یا نظریہ ہونے کے بجائے ایک طنزیہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ اگر یوٹوپین لوگ دکھائے گئے سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ تصور کر لیں کہ ان کے معاشرے میں شطرنج کے مہروں کی طرح ہر چال طے شدہ اصولوں کے تحت ہی چلی جائے گی تو یہ ان حماقت ہے۔
اب آتے ہیں یوٹوپیا کی تعریف کہ یوٹوپیا کیا ہے۔ یوٹوپیا
(Ju:' toupia/yoo-TOH-pee-a/)
اصل میں ایک ایسی کمیونٹی یا معاشرے کی وضاحت کرتا ہے جس کے اراکین انتہائی اعلیٰ صفات رکھتے ہیں۔ یہ یونانی الفاظ not"(ou)" "not" اور place "(topos)" سے اخذ کیا گیا تھا جس کا لفظی مطلب تھا حقیقی وجود نہ رکھنے والی خیالی و فرضی ریاست۔
سر تھامس مور نے یہ نظریہ یا کہانی اپنی 1516 کی کتاب ”یوٹوپیا“ میں تحریر کیا تھا جس میں دنیا میں ایک افسانوی جزیرے کی سوسائٹی بارے بیان کیا گیا۔ فرضی یوٹوپیا نظریہ کی بنیاد پر مختلف مجوزہ نفاذ کے طریقہ کار اور ساخت کے ساتھ معاشیات، حکومت اور انصاف جیسے زمروں میں دیگر جہتوں کے ساتھ ہر صورت میں مساوات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو جس معاشرے کے لوگ بھی یوٹپیائی سوچ رکھتے ہیں یا انہیں گھول کر پلا دی جاتی ہے اصل میں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ دنیا میں سب کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ سب اچھا کے حصول کے لیے Utopian state of mind سے باہر آنا ہو گا۔ بقول منو بھائی جیون لئی مرنا پیندا اے۔
کیہ ہویا اے
کجھ نئیں ہویا
کیہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
کیہ ہو سکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا اے
قارئین کالم بارے اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔